ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
حسین بھی ہیں( رضی اللہ عنہما) گویا اِن کا اختلاف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں اس طرز عمل سے ہوگیا تھا۔ ان کی رائے تھی کہ اِس طرح انعقاد ِخلافت و امارت ٹھیک نہیں ہوتا۔ کوفہ، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے علماء کی یہی رائے تھی حتی کہ مکہ اور مدینہ میں جن حضرات نے یزید کی جانشینی کی خبر آنے پر بیعت کرلی تھی بعد میں اُن میں سے بھی بعض کے سواء سب نے اِس کی نااہلی کی خبر پر بیعت توڑدی تھی۔ اور مدینہ منورہ کے لوگوں نے تو تمام بنواُمیہ کو بھی مدینہ سے نکال دیا تھا جن میں مروان بھی تھا۔ اس پر یزید نے غضبناک ہوکر مدینہ پر حملہ کا حکم دیا اور سپہ سالار مسلم بن عقبہ مری کو حکم دیا کہ تین دن تک مدینہ میں قتل و غارت گری مباح رکھنا۔ ابن تیمیہ منہاج السنة میں لکھتے ہیں وَاَمَرَہُ اَنْ یَّسْتَبِیْحَ الْمَدِیْنَةَ ثَلاثَةَ اَیَّامٍ اس کے بعد اس کا لشکر مکہ مکرمہ گیا، وہاں ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے مقابلہ ہوہی رہا تھا کہ یزید کی موت کی خبر آگئی۔ یزید کے بعد اُس کے بیٹے کو امیر بنایا گیا، لیکن اُس نے اس طرز حکومت کو پسند نہیں کیا بد دل رہااور صرف تیس پینتیس دن بعد اُس کا انتقال ہوگیا۔ پھر پوری سلطنت اسلامیہ میں بنو اُمیہ کی حکومت ختم اور ابن زبیر کی حکومت قائم ہوگئی۔ حتی کہ خود شام میں بھی حضرت ابن زبیر کی طرف سے حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ گورنر ہوگئے۔ چند سال کے بعد مروان نے کچھ جمعیت اکٹھی کی اور حضرت ضحاک سے لڑا پھر معاہدہ پھر بد عہدی کرکے اِنہیں شہید کردیا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد مروان کا بھی خود انتقال ہوگیا یا بیوی نے گلا گھونٹ دیا۔ پھر عبد الملک بن مروان جانشین ہوا۔ وہ اور اُس کا جنرل حجاج بن یوسف بہت کامیاب رہے۔ اُنہوں نے ازسر نو سلطنت بنو اُمیہ قائم کی۔ مکہ مکرمہ میں حضرت ابن زبیر کو شہید کردیا۔ اس تمہید کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ چند سطور میں متقدمین سے لے کر حضرت شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز رحمة اللہ علیہما اور اکابر دیوبند تک کا موقف سامنے آجائے اور یزید کے بارے میں بھی یہ بات آجائے کہ اُس کی تفسیق کی وجہ واقعہ حرہ ہے (جس میں مقتولین کی کثرت کا ذکر بخاری شریف جلد دوم، تفسیر سورہ اِذَاجَآئَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ میں حضرت انس اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کی روایت میں آتا ہے (اور تاریخ کی سب کتابوں میں موجود ہے) کیونکہ اُس کا انتقال اِسی دوران ہوگیا اور اس بے حرمتی سے توبہ کا ثبوت نہیں ملتا اِس لیے تفسیق اور بعض نے تکفیر بھی کی ہے۔ اِس سے بالاجمال یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ یزید کی مقبولیت اُس کے دورِ امارت سے پہلے بھی کم ہی تھی۔ دَور امارت میں ختم ہوگئی۔ بلکہ اہل مدینہ کے ساتھ زیادتی سے مسلمانوں میں اتنی مخالفت بڑھ گئی کہ ایک دفعہ تو