ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
ب ذرا اِن حضرات کے بیانات بھی پڑھ لیجئے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام بھیج دیا تھا کہ وہاں پڑھائیں۔ ان کی وفات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے اوائل میں ہوئی۔ وہ ایک دن گھر میں داخل ہوئے تو اہلیہ صاحبہ نے جو اُم الدرداء کہلاتی تھیں، دریافت کیا کہ آپ کو کس بات پر غصہ آرہا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا : وَاللّٰہِ مَا اَعْرِفُ مِنْ اَمْرِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا اِلَّا اَنَّھُمْ یُصَلُّوْنَ جَمِیْعًا۔ (بخاری شریف ص ٩٠ ج ١) ''خدا کی قسم! میں جناب رسول اللہ ۖ کے معاملات میں سے کوئی چیز یہاں ہوتی نہیں جانتا سوائے اِس کے کہ یہ جماعت سے نماز پڑھتے ہیں''۔ اِس کے بعد تو زمانہ اور کوتاہیوں کی طرف بڑھتا چلا گیا، اس کوتاہی کا ذکر بھی حدیث میں آتا ہے مثلاً حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد زہری رحمة اللہ علیہ مدینہ سے شام چلے گئے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ رورہے ہیں، میں نے رونے کی وجہ دریافت کی تو اُنہوں نے فرمایا : لَااَعْرِفُ شَیْئًا مِمَّا اَدْرَکْتُ اِلَّا ھٰذِہِ الصَّلٰوةَ وَھٰذِہِ الصَّلٰوةُ قَدْ ضُیِّعَتْ۔ (بخاری شریف ص ٧٦ ج١ باب فی تضییع الصلوة عن وقتھا) ''میں نے جو چیزیں (اپنے پہلے زمانہ میں) پائی تھیں اُن میں سے کوئی چیز جانی پہچانی نہیں معلوم ہوتی (یہاں نظر نہیں آتی) سوائے اِس نماز کے اور یہ نماز بھی ضائع کردی گئی ہے (یعنی وقت مستحب ٹلاکر پڑھتے ہیں)۔'' اِن چیدہ چیدہ معروف ترین صحابۂ کرام کی رائے اہل شام کی عملی حالت کے بارے میں آپ نے دیکھی جس سے واضح ہورہا ہے کہ مال کی کثرت اور عیسائیوں وغیرہ سے اختلاط بہت خاصی حد تک لوگوں پر اثر انداز ہورہے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ سفر ٧٥ ھ کے قریب ہوا تھا۔ دوسری طرف حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے آخری دور میں جب مدینہ منورہ پہنچے تو اِن سے صاف صاف پوچھا گیا کہ :