ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
الجواب امیر یزید علیہ الرحمة کے متعلق علاوہ تاریخی حوالجات کے صحیح بخاری کی حدیث مذکور در سوال بین طور پر یزید کی طہارت اور مغفرت پر دال ہے۔ پس مسلمانوں کو کب لازم ہے کہ رسول اللہ ۖ تو مغفور فرمائیں اور ہم یزید کو مقہور و مغضوب علیہ قراردیں۔ بلکہ حدیث میں آیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے جبکہ اُس میں کفر کی وجہ نہ ہو۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ۖ تو پیشگوئی میں اِس کو مغفور فرمائیں یہ کافر، فاسق و فاجر کہنے والا خود اس کا مستحق بن رہا ہے، ایسے خیال و نظریات بابت یزید علیہ الرحمة رکھنے والے کے پیچھے نماز کی ممانعت کہاں؟ واللہ اعلم بالصواب۔ (مفتیانِ بالا کی رائے صحیح ہے) ابوالفضل عبد الحنان ٣١ اگست ١٩٦٥ ء مولانا محمد یوسف خان مفتی پاکستان کراچی (کلکتہ والے) محترم مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اِس استفتاء کا جواب حضرت مفتی محمد شفیع نے یہ دیا تھا اِس سلسلے میں آپ کاکیا فتوی ہے؟ شکریہ۔ عرفان عثمان -R 553 بلاک نمبر 9 دستگیر سوسائٹی گلستانِ مصطفی ۖ (ایف بی ایریا) کراچی نمبر 38 ( الجواب ) حضرت مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم کے تصدیق کردہ فتوے سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ یزید کو کافر نہ کہنا چاہیے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ،باقی جوابات کے لیے مضمون ملاحظہ ہو۔ آپ کے سوالات کے جوابات زیادہ جگہ چاہتے تھے اس لیے میں نے مختلف ضمیمے شامل کرکے مکمل کیے۔ واللہ اعلم (حامد میاں غفرلہ ) ٣ اگست ٨٤ ء