ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2006 |
اكستان |
|
اب یوں سمجھئے کہ چونکہ نبیذ اُن کے لازمی مشروبات میں سے تھی جیسے آج کے دور میں چائے ہے اور یہی ذراسی بے احتیاطی سے نشہ کا باعث بن جاتی تھی۔ اس لیے دورِ صحابۂ کرام میں اور بعد کے دور میں نشہ کے واقعات پیش آتے رہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور سے زیادہ مضبوط دور کس کا ہوسکتا ہے۔ اُن کے زمانہ میں ایسے طرح طرح کے واقعات پیش آتے رہے بلکہ بکثرت ایسے واقعات ہونے لگے تو حضرت عمر نے صحابۂ کرام سے مشورہ کیا پھر اَسی کوڑے سزا مقرر کردی۔ امام شافعی فرماتے ہیں : ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ فِی الْخَمْرِ فَاسْتَشَارَ فَضَرَبَ ثَمَانِیْنَ (مختصر المزنی ص ٢٦٦) لیکن اِس کے بعد بھی ایسے واقعات ہوتے رہے، مثلاً بخاری شریف میں باب صوم الصبیان میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں نشہ کی حالت میں دیکھا تو فرمایا : وَیْلَکَ وَصِبْیَانُنَا صِیَام فَضَرَبَہ۔ (بخاری شریف ص ٢٦٣ ج١) ''تیرا ناس ہو! یہاں تو یہ حالت ہے کہ ہمارے بچے (بھی) روزہ سے ہیں پھر اُسے حد لگادی''۔ حاشیہ میں ہے کہ اَسی کوڑے لگائے اور اُسے شام بھیج دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ جو اہل ِبدر میں سے تھے اُن پر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے شراب کی حد لگائی۔ یہ اُن کے دورِ خلافت کے آخری حصہ کا واقعہ ہے۔( تفصیل کے لیے دیکھئے ، اُسد الغابہ ص ١٩٨ ج٤) حتی کہ خود اُن کے اپنے گھر میں ایسا واقعہ پیش آیا کہ اُنہوں نے اِس پر یہ فرمایا : وَجَدْتُّ مِنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ رِیْحَ شَرَابٍ وَاَنَا سَائِل عَنْہُ فَاِنْ کَانَ یَسْکُرُ جَلَدْتُّہ۔ (بخاری ص ٨٣٨ ج٢) ''میں نے عبید اللہ (اپنے بیٹے) سے شراب کی بو پائی ہے اور میں اُس کے بارے میں معلومات کررہا ہوں تو اگر وہ نشہ کی حد تک پیتا ہوگا تو میں اُس کے کوڑے لگائوں گا۔'' اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حمص میں تھے۔ وہاں ایک شرابی نے جب بات کی تو پتہ چلا کہ یہ