ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
قرآن پاک کو صحیح طریقے سے پڑھنے کو پہلے ہی جانتے ہیں۔ دوسرے عوام بھی ہوں تو اُن کے پیش ِنظر حسن صوت اور حسن ِلہجہ ہوتا ہے۔ اس پر محفل میں پڑھنے والے اگر یہ کہیں کہ ہم تو تعلیم و تبلیغ کی نیت سے پڑھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ بھی اپنی قراء ت کو بہتر بنانے کی نیت سے سنتے ہوں گے۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں قرآن پاک اور اُس کی تجوید کی تعلیم کے طریقے متعین اور معروف ہیں۔ محفل قراء ت میں تعلیم کا تصور سرے سے معروف نہیں لہٰذا یک طرفہ نیت سے محفل کی شرعی حیثیت نہیں بدلے گی۔ -2 قراء ت قرآن کے لیے تداعی کے جواز کی ایک دلیل حضرت مفتی جمیل احمد رحمہ اللہ نے یہ ذکر کی کہ رسول اللہ ۖ نے خود بھی لوگوں کو جمع کرکے قرآن سنایا۔ وہ واقعہ یہ ہے : '' حضور نے لوگوں کو فرمایا کہ سب جمع ہوجائو۔ میں تم کو ایک تہائی( 1/3 )قرآن مجید سنائوں گا۔ جو جمع ہونے تھے ہوگئے۔ حضور ۖ تشریف لائے اور سورة قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد تلاوت فرمائی۔ پھر اندر تشریف لے گئے تو ایک صحابی نے دوسروں سے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی آسمانی حکم آیا ہوا ہے اِسی لیے پھر اندر داخل ہوگئے۔ پھر حضور ۖ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ تم کو ایک تہائی قرآن مجید سنائوں گا تو سن لو یہ سورة ایک تہائی قرآن مجید کے برابر ہے۔ ( محافل قراء ت ص ٢٠) حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ کا اِس واقعہ سے استدلال تعجب خیز ہے کیونکہ اِس حدیث سے واضح ہے کہ وہ اجتماع اس لیے کیا گیا تھا کہ اُمت کو ایک حکم یعنی سورہ اخلاص کے ثواب میں ایک تہائی قرآن کے برابر ہونے کی تعلیم دی جائے۔ مروجہ محفل قراء ت کے لیے تداعی و اہتمام کو حدیث میں مذکورہ مقصد کی خاطر اجتماع و اہتمام پر قیاس کرنا تو قیاس مع الفارق ہے۔ -3 حضرت مفتی جمیل احمد صاحب رحمہ اللہ نے محفل قراء ت کا ایک فائدہ یہ شمار کرایا ہے کہ اِس سے کلام پاک کو بے عیب طریقہ سے پڑھنے کا شوق دِلایا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اِس فائدے سے انکار نہیں لیکن جب ہمیں مروجہ محفل قراء ت کی شرعی حیثیت معلوم