ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
صرفِ نظر کرتے ہوئے اِس کے عدم جواز کی اصل دلیل یہ ہے کہ اِس میں ایک مستحب کام کے لیے تداعی ہوتی ہے جو بذات ِخود صحیح نہیں۔ عدم جواز کی اس دلیل کے خلاف حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : (i) تجوید کے ساتھ قرآن پاک کا لوگوں تک پہنچانا واجب ہے کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ اور اِرشاد نبوی ہے بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰ یَةً . (ii) قراء ت قرآن کی عملی تبلیغ ہے۔ مفتی جمیل احمد صاحب رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا استدلال اس طرح ہے کہ لوگوں کے سامنے تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنا واجب ہے کیونکہ وہ قرآن کی عملی تبلیغ ہے اور واجب کے لیے تداعی ہوسکتی ہے لہٰذا لوگوں کو اکٹھا کرکے مروجہ طریقہ پر محفل قراء ت کا انعقاد جائز ہے۔ قاری حبیب الرحمن سلمہ' بھی اپنے رسالہ میں اِس سے اتفاق کرتے ہیں۔ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ قرآن پڑھنے اور سننے کی دو صورتیں ہیں : (i) ''تبلیغ کی'' جیسا کہ قرآن پاک کے درس یا تجوید وغیرہ کی تعلیم میں ہوتی ہے کہ پڑھ کے بھی دکھایا جاتا ہے اور مشق بھی کرائی جاتی ہے۔ (ii) ''ذکر کی'' جیسا کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوکہا کہ تم مجھ کو قرآن پڑھ کر سنائو۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا میں آپ کو سنائوں حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ ۖ نے فرمایا میں دوسرے سے سننا پسند کرتا ہو۔ (محافل قراء ت ص ٢٠) اس صورت کو تعلیم و تبلیغ پر محمول کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ اِن دو میں سے پہلی صورت کی شرعی حیثیت واجب کی ہے جبکہ دوسری صورت کی حیثیت مستحب کی ہے۔ ہماری بات سے یہ نتیجہ نکلا کہ قرآن پاک کی جو تلاوت دوسرے کے سامنے کی جائے اُس کو یہ سمجھنا کہ وہ لامحالہ تبلیغ و تعلیم ہے دُرست نہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ محفل قراء ت میں قرآن پاک پڑھنے اور سننے کی صورت تعلیم و تبلیغ کی نہیں بلکہ ذکر کی ہوتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک تو مشاہدہ بتاتا ہے کہ محفل میں اکثر تعداد اُن علماء ،قراء اور طلبہ کی ہوتی ہے جو