ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
رہے تھے۔ آپ ۖنے فرمایا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری اُمت میں ایسے لوگ بنائے کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں اپنے آپ کو اُن کے ساتھ رکھوں۔'' اس حدیث پاک سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قرآن سننے کے لیے اجتماع ثابت ہوا۔ ہم کہتے ہیں کہ خیر المدارس کے دار الافتاء نے نہ تو قراء ت کے بصورت تعلیم اور بصورت ذکر ہونے کے درمیان فرق کیا اور نہ ہی اِس بات کو پیش نظر رکھا کہ حدیث میں مذکور اجتماع کے لیے تداعی ہوئی تھی یا نہیں؟ دوسری بات اِس وجہ سے اہم ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے فارغ اوقات مسجد میں گزارتے تھے اور اس طرح مختلف حلقے خود بخود لگ جاتے تھے اور کسی بھی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ ذکر اور بصورت ذکر تلاوت کے لیے تداعی کی گئی ہو۔ لہٰذا اگر وہ قراء ت بصورت ذکر تھی تو خیر المدارس کے دارالافتاء کو اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے تداعی کو ثابت کرنا ہوگا کیونکہ مروجہ محفل قراء ت میں تلاوت کی صورت بھی تعلیمی اور تبلیغی ہوتی ہے حالانکہ ہم اُوپر بتاچکے ہیں کہ امر واقعہ ایسا نہیں ہے۔ اِن دو باتوں کو ثابت کیے بغیر خیر المدارس کا فتویٰ سعی لاحاصل ہے۔ قراء ت ِ قرآن کے متبادل جائز طریقے : -1 مسجد کے امام و خطیب اگر خود اچھے قاری ہوں تو وہ کبھی کبھی نماز کے علاوہ بھی نماز سے متصل بعد لوگوں کو ایک دو رکوع اچھے انداز سے پڑھ کر سنادیں۔ -2 کبھی کوئی مہمان قاری آئے ہوں تو اُن سے پڑھوالیں۔ -3 جن قاری صاحبان کے نزدیک اِس طرح سے تبلیغ کی ضرورت ہے وہ وقتا فوقتاً دوسری مساجد میں جاکر کسی تشہیر کے بغیر نماز کے بعد موجود لوگوں کو قرآن پاک سنائیں۔