ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
حفاظت کا وعدہ خود باری تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اس کانفرنس کے موقع پر حضرت امیر الہند رحمة اللہ علیہ نے تاریخی مفصل خطبۂ استقبالیہ پڑھا۔ جس کے سننے کے بعد اجلاس میں شریک دانشوروں، علمائے کرام، مفتیان ِعظام کی طرف سے خصوصی مبارک باد پیش کی گئی اور کہا گیا کہ حضرت والا نے ایک ایسے موضوع کی اہمیت سے روشناس کرایا جس کے بارے میں غافل مسلمان بالکل کچھ نہیں جانتے تھے۔ بابری مسجد : بابری مسجد کے مسئلہ کے حل کے لیے ویسے تو ١٩٤٩ء سے مسلسل جمعیت علمائے ہند کے اکابر کوشش کرتے رہے۔ انہی کوششوں کے تسلسل کو حضرت امیرالہند، فدائے ملت رحمة اللہ علیہ نے باوجود سنگین سے سنگین ترحالات ہوجانے کے جاری رکھا۔ ہردور میں عدالتی طریق کار سے مسلمانوں کی اِس مظلومیت سے حکومتوں کو آگاہ کیا جاتا رہا اور حضرت فدائے ملت رحمہ اللہ کی کوشش ہر ظالم وجابر جانبدار فرقہ پرست حکمران کی ذلت کا باعث بنتی رہی۔ امداد و وظائف : حضرت امیر الہند رحمة اللہ علیہ کے دورِ صدارت میں ایک اہم کام یہ بھی ہوا کہ جمعیت نے مسلمانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینے کے لیے ١٩٧٤ء سے تعلیمی وظائف کا پُرتحسین سلسلہ شروع کرررکھا ہے۔ اس میں مزید توسیع کے لیے ''مجاہد ملت سکالر شپ'' ١٩٩٠ء میں قائم کیا گیا جس کے تحت اعلیٰ دینی و فنی تعلیم حاصل کرنیوالے طلباء کو وظائف دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اسے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کے خاتمہ کی طرف ایک اہم قدم کہا جاسکتا ہے۔ نیز امیر الہند رحمة اللہ علیہ کے دورِ صدارت میں اِس سلسلے میں اہم کوششوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ضرورت مند طلباء کی مدد کرنا، رہنمائی کرنا، انہیں سرکاری سہولتوں کی معلومات بہم پہنچانا، دینی و دنیوی تعلیم کو جمعیت کے پروگرام میں اہمیت دینا۔ دینی مکاتب کا قیام، دار المطالعہ، لائبریری کا قیام، درس حدیث کا اجرائ، مسلمان بچوں اور بچیوں کے لیے دُنیاوی تعلیم پر توجہ دینا۔ KG اور EM سکول کے ساتھ ٹیکنیکل پیشہ وارانہ تعلیم کے لیے کوشش کرنا۔ جمعیت علمائے ہند ہمیشہ اِس بات کے لیے کوشش کررہی ہے کہ ملک کی مسلم اقلیت ہندوستان کو اپنا مالک سمجھ کر کھل کر ہاتھ بٹائے اور ساتھ دے۔