ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
کر اُس پر قتل کی سزا جاری کرے۔ عام آدمی کے لیے قانون کے نفاذکو اپنے ہاتھ میں لینا مناسب نہیں لیکن اس کے باوجود اگر کسی عام شخص نے ایسے گستاخ اور بدگوئی کرنے والے شخص کو قتل کردیا تو اُس پر شرعاً نہ قصاص ہے اور نہ تاوان، کیونکہ ایسے شخص کا خون مباح ہوجاتا ہے اور اُس کا قتل جائز ہوجاتا ہے، عام شخص کے لیے ایسا کرنا صرف خلافِ انتظام ہے۔ یہ تفصیل اُس وقت ہے جبکہ گستاخی کرنے والا حربی کافر ہو یا مسلمان ہو لیکن اگر گستاخی کرنے والا ذمی کافر ہو (یعنی اسلامی ملک کا باشندہ ہو) تو بعض فقہاء کے نزدیک اُس کا بھی یہی حکم ہے جو اُوپر لکھا گیا کیونکہ ایسے کافر کا ذمی ہونا ختم ہوجائے گا۔ لیکن بعض فقہاء جیسے علامہ شامی رحمہ اللہ کی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ ذمہ تو ختم نہ ہوگا لیکن انتظامی اور تعزیری طور پر حکومت ِوقت اُس کو قتل کرسکتی ہے جبکہ وہ علانیہ اور بار بار سب و شتم کرتا ہو۔ (ملاحظہ ہو ''رسائل ابن ِعابدین'' ج١/٣٥٤ و خلاصة الفتاویٰ ج٤/٣٨٦ و شامیہ ج٤/٢١٥) شرعی سزا کا نفاذ ممکن نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣ : موجودہ دَور میں اگر شرعی سزا کا نفاذ ناممکن ہو تو مسلمانوں کے لیے اس سے برا ء ت اور بچائو کے لیے کیا حکم ہے اور وہ کیا طریقہ اختیار کریں؟ جواب : ایسی صورت میں ہر مسلمان کے ذمّہ ہے کہ اس میں جتنی قوت و طاقت ہو وہ جائز اور ممکن طریقوں کے ذریعہ ایسی گستاخانہ حرکتوں کو اور ایسی گستاخانہ حرکت کرنے والوں کو اور اُن کے اسباب و ذرائع کو روکیں اور جس میں یہ قدرت نہ ہو اُن پر زبان سے اس کی خرابی اور برائی بیان کرنا واجب ہے۔ اور جس کو زبان سے کہنے میں جان و مال کا خطرہ ہو اُس کے لیے دل میں برا جاننا واجب ہے جیساکہ مسلم شریف کی حدیث میں یہی تفصیل آئی ہے : ''سرکارِ دو عالم ۖ نے فرمایا : تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو چاہیے کہ اپنی طاقت سے اس کو روکے، اگر اِس کی قوت نہ ہو تو زبان سے اِس کو منع کرے، اگر اِس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اِس کو بُرا سمجھے، یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔'' ( مسلم شریف ج١/٥١) اِس سلسلے میں احتجاج کرنا درست ہے بشرطیکہ احتجاج پُر امن طریقے سے ہو اور اُس میں حرام و ناجائز کاموں کا اِرتکاب نہ ہو۔ مثلاً لوگوں کی اَملاک اور اَموال کو نقصان پہنچانا، جلائو، گھیرائو اور پتھرائو کرنا وغیرہ۔ کیونکہ یہ سب گناہ کے کام ہیں جو حرام اور ناجائز ہیں اِن سے بچنا ہرحال میں لازم ہے۔ سوال نمبر ٤ : ایسے لوگوں سے تجارتی تعلقات ختم کرلینا یا معاہدات ختم کرلینا شرعی رُو سے جائز ہے یا نہیں؟