ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
محافل ِقراء ت کی شرعی حیثیت ( حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب ) بسم اللہ حامدا و مصلیا ! محافل قراء ت جس طرح سے ہمارے معاشرے میں رائج ہوچکی ہیں لوگوں کے ذہنوں میں اِس کی شرعی حیثیت کے بارے میں سوال اُٹھتا رہتا ہے۔ بعض وجوہ سے اِس کے جواز پر اطمینان نہ تھا جس کا بعض حضرات کے سامنے اظہار بھی کیا۔ بعض اہل علم حضرات نے تقریباً دو سال قبل اِس بارے میں ایک استفتاء بھی مرتب کرکے دیا لیکن دیگر مصروفیات کی وجہ سے اِس پر لکھنے کا موقع نہیں ملا۔ اِسی دوران جامعہ دار العلوم اسلامیہ لاہور کی جانب سے محافل قراء ت کے عنوان سے حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ کا ایک مقالہ تقسیم کیا گیا۔ اس رسالہ کے بعض مندرجات سے اتفاق نہ ہوا لیکن پھر بھی کچھ لکھا نہ جاسکا۔ ابھی چند دن پہلے جامعہ صدیقیہ لاہور کے اُستاد قاری حبیب الرحمن سلمہ نے'' محفل قراء ت ''کے نام سے ایک رسالہ چھپواکر تقسیم کیا۔ ایک نسخہ مجھے بھی دیا۔ اب اور کاموں کو مؤخر کرکے میں بنام ِخدا محض ضروری بات لکھنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔ وَاللّٰہُ یَھْدِی السَّبِیْلَ۔ قاری حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں : ''رسول اللہ ۖ کے دورِ اقدس میں قراء ت قرآن، سماع قرآن اور مدارسہ قرآن کی مثالیں ملتی ہیں، گو محفل قراء ت کی مروجہ صورت تو اُس وقت نہ تھی مگر ایک جگہ جمع ہوکر ایک قاری تلاوت کرے اور باقی سنیں اور اسی طرح قرآن کریم کے حلقے لگیں اور حلقے میں شریک ہر ایک آدمی پڑھے اور باقی سنیں اِس کا ثبوت حدیث سے ملتا ہے۔'' (محفل قراء ت صفحہ ٢) قاری صاحب کی یہ بات درست ہے کہ محفل قراء ت کی مروجہ صورت رسول اللہ ۖ کے دور میں نہ تھی۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ زمانہ خیر القرون میں بھی نہ تھی۔ اس سے یہ سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ پھر محفل قراء ت کی مروجہ صورت کے جواز کی کیا دلیل ہے؟ -1 ہم کہتے ہیں کہ محفل قراء ت کی مروجہ صورت کے جواز کی کوئی دلیل موجود نہیں اور دیگر مفاسد سے