ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
توہین ِ رسالت اور گستاخانِ رسول ۖ کا بدترین انجام ( حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب سکھروی ) الحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوة والسلام علٰی خیرخلقہ سیّدنا ومولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین امابعد ! ڈنمارک اور بعض یورپین ممالک میں کچھ لوگوں نے سرکارِ دو عالم ۖ کے گستاخانہ خاکے بنائے اور شائع کیے ہیں۔ یہ عزت مآب جناب رسول اللہ ۖ کی شان میں توہین اور سرا سر گستاخی ہے جو حرام، قطعاً ناجائز اور سنگین جرم ہے، اِس کی سزا قتل ہے۔ اِس پر دُنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید غم و غُصّہ کا اظہار کیا ہے جو کرنا ہی چاہیے۔ اِس موقع پر کچھ سوالات ذہنوں میں اُبھرتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اُن کے جوابات لکھے گئے ہیں۔ آنحضرت ۖ کے زمانہ سے لے کر آج تک جن لوگوں نے یہ گناہ اور سنگین جرم کیا ہے اُن کا بدترین انجام ہو ا اور ذلت کی موت مرے۔ تاریخ ِاسلام سے ایسے لوگوں کے چند واقعات بھی عبرت کے لیے لکھے گئے ہیں۔ تحفظ ناموسِ رسالت کی شرعی حیثیت : سوال نمبر ١ : تحفظ ِناموسِ رسالت کی شرعی حیثیت اور اُس کی حدود کیا ہیں؟ سوال نمبر ٢ : اگر کوئی شخص یا حکومت اِس کا ارتکاب کرتی ہے تو شرعاً اُس کی سزا کیا ہے؟ جواب ٢،١ : تحفظِ ناموسِ رسالت تمام مسلمانوں کا دینی اور شرعی فریضہ ہے کیونکہ حضور ۖ کا حق تو ہماری اپنی جانوں سے بھی بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ ترجمہ'' نبی کریم (ۖ) مومنین کے ساتھ اُن کے نفس (اور ذات) سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں''۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ' تفسیر معارف القرآن میں اِس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں :