ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
لیے تو رسول اللہ ۖ نے ایک دفعہ اِرشاد فرمایا اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو امیر بناتا تو میں اِن پر عبد اللہ ابن مسعود کو امیر بنادیتا لَوْ کُنْتُ مُؤَمِّرًا مِّنْ غَیْرِ مَشْوَرَةٍ لَاَمَّرْتُ عَلَیْھِمْ اِبْنَ اُمِّ عَبْدٍ ١ اب حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کارناموں کا ذکر اگر چلے تو اُس میں یہ بات آئے گی کہ اُن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا خاص مشیر بنارکھا تھا۔ حضرت عمر نے کوفہ آباد کیا ،اُس کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچ گئی : دوسری طرف جب کوفہ آباد کیا اُنہوں نے تو وہاں تخطیط کی یعنی پلاٹنگ کی تو اُس میں بہت بڑی آبادی بن گئی کوفہ کی، اُس دور میں کسی جگہ کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچ جائے، یہ بڑی بات تھی کیونکہ آبادیاں ہی تھوڑی تھیں تو کم ایسے شہر تھے جو ایک لاکھ تک پہنچے یا ایک لاکھ سے زیادہ، تو کوفہ کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ وہاں صحابہ کرام جنہوں نے ایران کی طرف عراق کی طرف اور اُس کے شمال میں آذربائیجان وغیرہ کی طرف پیش قدمی کی وہ صحابہ کرام اُن کی اولادیں اُن کے گھرانے یہ سب تھے۔ اب یہ خالص عربی نسلیں ہیں۔ کوفہ اور بصرہ کے نحوی : ہمارے عربی پڑھنے والے سب جانتے ہیں کہ نحوی یعنی گرائمر اور قوائد کی کتابوں میں یہ ذکر آتا ہے کہ کوفہ کے نحوی یہ بات کہتے تھے بصرہ کے نحوی یہ بات کہتے تھے۔ آپس میں جہاں کہیں اختلاف رائے ہو وہاں اِن کا ذکر آتا ہے گویا عربی لغت کے اعتبار سے اِن کا اتنا بڑا وزن ہے کہ اِن کی بات گرائمر میں حجت بن کر چلی آرہی ہے دلیل بن کر چلی آرہی ہے۔ قرآن پاک کو جمع کرنے والے حضرات کے لیے حضرت عثمان غنی کی ہدایت : جیسے لغت ِقریش جو ہے وہ بھی ایک دلیل ہے خاص قریش کی لغت ہے۔ حضرت عثمان غنی اور دوسرے حضرات نے جب قرآن پاک جمع کیا تو اُس وقت حضرت عثمان نے فرمایا تھا کہ اِذَا اخْتَلَفْتُمْ اَنْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ یہ طے کیا تھا ایک اصول کہ جہاں کہیں قرآن پاک کے الفاظ میں دو الفاظ کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے مثلاً تو وہاں اگر اختلاف ہو تو فَاکْتُبُوْہُ بِلُغَةِ قُرَیْشٍ تو جو لغت قریش میں لکھے اُسے ترجیح دے۔ وہ بھی ایک ١ مشکوٰة ج٢ ص٥٧٨