ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
علمی مقام اتنا بڑا مانا گیا ہے کہ پہلے تو تعظیماً چاروں خلفاء کے نام لکھے ہیں، ترتیب وار ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اِن کے بعد باقی جو عشرہ مبشرہ میں سے چھ رہے ہیں اُن کے نام آنے چاہئیں لیکن ایسے نہیں ہے۔ ان چار کے بعد پانچواں نام عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا لکھا ہے۔ گویا علمی مقام اِن کا بہت بڑا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اِن کو اختلاف ہوتا تھا رائے کا، تو گویا امیر المؤمنین جیسے عالم اور ذکی اور سمجھدار اور حافظ سے اختلاف کرنا کسی کا، یہ خاصہ مشکل کام ہے۔ جب تک اُس کی اپنی قابلیت اتنی زیادہ نہ ہو۔ تو حضرت عمر نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پسند فرمایا کہ کوفہ بھیج دوں ،کوفہ بھیج دیا اور لکھ دیا کہ اٰثَرْتُکُمْ بِعَبْدِ اللّٰہِ عَلٰی نَفْسِیْ میں نے عبد اللہ ابن مسعود کو تمہارے پاس بھیج کر اپنے اُوپر ترجیح دی ہے تم لوگوں کو ،ورنہ میں انہیں اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔ اِنہوں نے وہاں پڑھانا شروع کیا اور پڑھنے والوں کی خوش قسمتی تھی کہ اِنہوں نے جو کچھ وہ پڑھاتے تھے وہ ضبط کرتے رہتے تھے، تحریر کرتے رہتے تھے، یاد کرتے رہتے تھے۔ اور یہ کام بالکل خاموشی کے ساتھ ہوتا رہا۔ اِس کا کوئی خاص تذکرہ اُس دور میں اتنا نہیں ہوا شہرت کے ساتھ، ایک درجہ میں ہوا ہے مثلاً حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ'' طاعونِ عمواس'' میں جب اِن کی وفات ہوئی تو اُنہوں نے اپنے شاگرد عمرو ابن میمون ِ اودی سے جو مُخْضَرَمِیْنَ میں ہیں یعنی زمانہ تو پایا ہے اُنہوں نے رسول اللہ ۖ کا لیکن اسلام بعد میں لائے ہیں۔ اِنہوں نے پوچھا میں اب کہاں جائوں تو انہوں نے ہدایت کی کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جائو تو اِس طرح کی چیزیں ملتی ہیں۔ حضرت ابن ِمسعود کی تعلیمی خدمات پر حضرت علی کی رائے : پھر بعد میں جب دَور آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اور وہ پہنچے ہیں وہاں کوفہ تو بڑے خوش ہوئے، تو انہیں معلوم ہوا اَرْبَعُ مِأَةٍ قَدْ فَقِھُوْا یہاں توچار سو ایسے ہیں لوگ کہ جو فقاہت کے درجہ کو پہنچے ہوئے ہیں، حدیث کی معلومات انہیں ہے، فتوے وہ دے سکتے ہیں، فیصلے وہ کرسکتے ہیں۔ یہ چار سو اور یہ سب اُن کے شاگرد، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دُعائیہ جُملے ارشاد فرمائے کہ رَحِمَ اللّٰہُ ابْنَ اُمِّ عَبْدٍ مَلَأَ ھٰذِہِ الْقَرْیَةَ عِلْمًا اللہ تعالیٰ ابن اُم عبد پر اپنی رحمتیں بھیجے اُنہوں نے اس شہر کو علم سے بھردیا۔ ایک دفعہ فرمایا اَصْحَابُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ سُرُجُ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے جو شاگرد ہیں وہ اِس آبادی کے اِس شہر کے چراغ ہیں۔ تو پھر اِسے بڑا مقام حاصل ہوگیا۔