ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
کو انہوں نے لکھا ہے '' قُبَّةُ الْاِسْلَامْ '' اب لغت کی کتابوں میں قبة الاسلام لکھنے لگے، اسلام کا گنبد ہے گویا۔ تو اب کوفہ میں پندرہ سو صحابہ کرام ہیں۔ ملکوں کو دیکھیں مصر ایک ملک ہے جیسے لیبیا، مراکش جیسے الجزائر یہ تیونس یہ سب گویا شمالی پٹی ہے ملک ہیں افریقہ کے، اِس کو فتح کرنے والے اور جانے والے صحابہ کرام کی تعداد دیکھیں کیونکہ بعد میں تو لوگ مسلمان ہوتے چلے گئے، لشکروں میں شامل ہوتے چلے گئے۔ تابعی تھے وہ، صحابی تو نہیں تھے۔ صحابہ کو اگر دیکھا جائے تو تین سو سے زیادہ نہیں ہیں۔ باقی تو اِن کے بعد صحابہ کرام کی اولادیں ہیں، عرب قبائل ہیں تابعین ہیں جنہوں نے فتح کیا، جو لشکری تھے اور صحابہ کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں ملتی ،اسی طرح سے اور جگہوں پر بھی دیکھا جائے یہ پورے ملکوں میں نہیں ملے گی ، اور یہاں صرف ایک شہر کوفہ میں پندرہ سو جمع ہوگئے۔ قرقیسیہ میں صحابہ کی تعداد : اور ایک مقام اور ہے '' قَرْقِےْسِےَة '' وہ کوفہ سے کچھ فاصلے پر ہے اُس میں چھ سو صحابہ کرام آباد ہوئے ہیں، تو چھ سو یہ ہوئے، پندرہ سو وہ ہوئے۔ یہ وہ ہیں جو وہاں رہ گئے اور جو آئے اور چلے گئے وہ الگ ہیں وہ اِن کے سوا ہیں۔ امام بخاری اور کوفہ : تو امام بخاری رحمة اللہ علیہ بھی لکھتے ہیں اپنے حالات میں کہ لَا اُحْصِیْ مَا دَخَلْتُ الْکُوْفَةَ وَ بَغْدَادَ میں یہ شمار نہیں کرسکتا کہ کوفہ اور بغداد میں کتنی دفعہ گیاہوں علم حاصل کرنے کے لیے حدیثیں حاصل کرنے کے لیے۔ مسلکِ حنفی کا مرکز بھی کوفہ ہے : اور جناب آپ یہ دیکھئے کہ وہیں سے پھر مسلک حنفی چلا ہے اور ساری دُنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں حنفی ہی ہیں، یہ بھی وہیں سے نکلا ہے۔ اگرچہ شیعہ بھی وہیں تھے، خواج بھی وہیں تھے، مگر اہل سنت بھی وہیں تھے، یہ مصنَّفِ ابن ابی شیبہ بہت بڑی کتاب ہے، مصنَّفِ عبد الرزاق سے بھی زیادہ بڑی ہے۔ یہ چھپ کر آئے گی صحیح تو پھر پتہ چلے گا مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ اُس سے زیادہ بڑی ہے تو اُس کے مصنف جو ہیں وہ بھی وہاں کے ہیں اور پتہ نہیں کون کون سفیان ثوری، سفیان ابن عیینہ وغیرہ وغیرہ بہت حضرات ہیں کوفہ میں، اِس کی لسٹ بنائی ہے۔