ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
مسئلہ آسام : حضرت امیر الہند رحمة اللہ علیہ نے اپنے دَور نظامت و صدارت کے دوران آسام کے مسلمانوں کی ہمیشہ رہنمائی فرمائی۔ اگرچہ آپ کے دور میں آسام کی مسلم اقلیت کے مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوگئے۔ تاہم فدائے ملت رحمة اللہ علیہ نے اس بارے میں خصوصی کوششیں جاری رکھیں۔ بلاشبہ یہ جمعیت علماء ہند کا عظیم کارنامہ ہے جس سے مستقبل کا مؤرخ اِس کی اہمیت کے پیش ِنظر مسلمانوں کی تاریخ کو بالعموم اور مسلمانوں کی اِس تنظیم کو بالخصوص سنہری عبارت سے مرتب کرے گا۔ مسئلہ کشمیر : اس مسئلہ کو بھی حضرت امیر الہند، فدائے ملت رحمة اللہ علیہ نے اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ بہت اہمیت دی اور کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اُٹھائی جس کا اندازہ ١٦ اپریل ١٩٩٠ء کی جمعیت علماء ہند کی قرارداد کشمیر کے اِن الفاظ سے کیا جاسکتا ہے کہ '' ہم اپنے کشمیری بھائیوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جگ موہن کو واپس بلائے اور کشمیریوں کے مطالبات پر فوراً غور کرے۔ چونکہ ظلم و جبر سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اِس لیے ضروری ہے کہ حکومت کشمیر کے سیاسی رہنمائوں سے بات چیت کرے اور جمہوری اور آئینی طریقے سے مسئلے کو سُلجھانے کی کوشش کرے۔'' چنانچہ فدائے ملت، امیر الہند رحمة اللہ علیہ کی اپیل پر ١٦ اپریل ١٩٩٠ء کو یومِ کشمیر منایا گیا۔ مسلم اَوقاف کی حفاظت : ہندوستان میں مسلم اوقاف کی حفاظت اور اُن کے ذریعے ہونے والی آمدنیوں کا صحیح مصرف ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ جمعیت علماء ہند کے لیے ہمیشہ یہ مسئلہ قابل توجہ رہا۔ حضرت امیر الہند رحمة اللہ علیہ کے دَورِ نظامت و امارت میں بھی اوقاف کو حکومتی مداخلت اور مطلوبہ حیثیت و اہمیت کو بچانے کی برابر جدوجہد ہوتی رہی اور حکومت سے قانون اوقاف میں ایسی ترمیم کا مطالبہ بھی کیا جس سے وقفی جائیدادوں کی حفاظت کا انتظام ہوسکے۔ تاہم جمعیت کی مسلسل جدوجہد کے بعد مولانا اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ سے ١٩٨٩ء میں مرکزی گورنمنٹ نے وعدہ کیا کہ اِس سلسلہ میں کوئی ضرور مناسب کارروائی کی جائے گی اور آئندہ اجلاس پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی