ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2006 |
اكستان |
|
''صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا مَا مِنْ مُّؤْمِنٍ اِلَّا وَاَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِہ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ اَقْرَأُوْ اِنْ شِئْتُمْ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ الاٰیة۔ ترجمہ '' کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لیے دُنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اُولیٰ و اقرب نہ ہوں، اگر تمہارا دل چاہے تو اس کی تصدیق کے لیے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ لو اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ (صحیح البخاری : ج٢/٧٠٥) جس کا حاصل یہ ہے کہ میں (حضرت محمد مصطفٰی ۖ) ہر مؤمن مسلمان پر ساری دُنیا سے زیادہ شفیق و مہربان ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ اِس کا لازمی اثر یہ ہونا چاہیے کہ ہر مومن کو آنحضرت ۖ کی محبت سب سے زیادہ ہو جیسا کہ حدیث میں بھی یہ اشارہ ہے لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہ وَوَلَدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری، مسلم، مظہری) ترجمہ ''تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اُس کے دل میں میری محبت اپنے باپ، بیٹے اور سب انسانوں سے زیادہ نہ ہو''۔ (معارف القرآن ج٧/٨٧) ذیل میں چند احادیث ِمبارکہ ا ور آثارِ صحابہ سے بھی تحفظِ ناموسِ رسالت کی اہمیت واضح ہو تی ہے : ''حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص کی اُم ولد باندی تھی جو نبی کریم ۖ کو گالیاں دیتی تھی اور آپ ۖ کی شان میں گستاخی کرتی تھی۔ وہ اُس کو روکتے تھے مگر وہ نہ رُکتی تھی، وہ اُسے ڈانٹتے تھے مگر وہ نہ مانتی تھی۔ راوی کہتے ہیں جب ایک رات پھر اُس نے نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخیاں کرنا اور گالیاں دینی شروع کیں تو اُس نابینا نے ایک خنجر لیا اور اُس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال کر دبادیا اور اُس کو مارڈالا۔ عورت کی ٹانگوں کے درمیان سے بچہ نکل پڑا اور جو کچھ وہاں تھا وہ خون آلود ہوگیا، جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضور ۖ کی خدمت میں ذکر کیا گیا۔ آپ ۖ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا میں اِس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے جو کچھ کیا میرا اُس پر حق ہے وہ کھڑا ہوجائے تو وہ نابینا شخص کھڑا ہوگیا اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا اِس حالت میں آگے