ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
وَاِنْ نَّکَثُوْا اَیْمَانَھُمْ مِنْ بَعْدِ عَھْدِھِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِےْنِکُمْ فَقَاتِلُوْآ اَئِمَّةَ الْکُفْرِ اِنَّھُمْ لَااَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَ o اَلا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْا اَیْمَانَھُمْ وَھََمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَھُمْ بَدَئُ ْوکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ اَتَخْشَوْنَھُمْ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (سورۂ توبہ آیت ١٢،١٣ ) ''اور اگر وہ توڑیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں (خاکے بناکر یا دیگر طریقوں سے) تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے، بیشک اِن کی قسمیں کچھ نہیں، تاکہ وہ باز آئیں۔ کیا نہیں لڑتے ایسے لوگوں سے جو توڑیں اپنی قسمیں اور فکر میں رہیں کہ رسول کو نکال دیں اور (حالانکہ) اُنہوں نے پہلے چھیڑ کی، کیا اِن (بدعہد، دغابازوں) سے ڈرتے ہو، سو اللہ کا ڈر چاہیے تم کو زیادہ اگر تم ایمان رکھتے ہو''۔ اِن کی عہد شکنی کی عادت کی بنا پر قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے : کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلاًّ وَّلَا ذِمَّةً یُّرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ وَتَأْبٰی قُلُوْبُھُمْ وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ۔ (سورۂ توبہ آیت ٨ ) ''کیوں کر رہے صلح اور اگر وہ (اے مسلمانوں) تم پر (غالب آکر) قابو پائیں تو نہ لحاظ کریں تمہاری قرابت کا اور نہ عہد کا، تم کو (بہلا پُھسلاکر) راضی کرلیتے ہیں، اپنے منہ کی بات سے (زبانی کلامی) اور اُن کے دل نہیں مانتے اور اکثر اُن میں بد عہد ہیں''۔ ائمہ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی کافر مرد یا عورت نبی علیہ السلام کو علی الاعلان بُرا کہے تو اُس کو قتل کردیاجائے اگرچہ وہ ذمی ہی ہو، کیونکہ یہ حرکت کرکے اُس نے معاہدہ توڑڈالا، لہٰذا اُس کی جان کی امان جاتی رہی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص تھا ''ابن ِ خطل'' یہ پہلے مسلمان ہوگیا تھا پھر مرتد ہوکر مشرک ہوگیا،اُس کی دو گانے والی لونڈیاں تھیں جو نبی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کے نغمے گاتی تھیں۔ جب مکہ فتح ہوا تو یہ جان بخشی کی خاطر بیت اللہ کے غلاف سے چمٹا رہا، نبی علیہ السلام کو اِس کی خبر دی گئی، آپ ۖ نے فرمایا اس کو قتل کردو، چنانچہ اُس کو قتل کردیا گیا۔ (بخاری شریف ج١ ص ٢٤٩)