ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
سر زمین ِ دیوبند کی قبولیت : اِن کے بعد بظاہر علماء ربانیین کا وجود بہت قلیل ہوگیا۔ عامة الناس کو ظالم کی قوت کا عروج نظر آیا۔ ایسے قحط الرجال کے زمانہ میں اللہ رب العزت نے حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے دعوت الی اللہ اور غلبۂ اسلام کا کام بصورت تحریک ''دار العلوم دیوبند'' لیا۔اللہ تعالیٰ نے اِن دونوں بزرگوں کی تربیت و مجاہدانہ کردار کی سرپرستی سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے کروائی۔ مقام ِ شیخ الہند : اِن کی محنت اور ہمہ قسم قربانیوں کو اللہ نے وہ شرف قبولیت بخشا کہ مذکورہ تینوں بزرگوں کی آغوش تعلیم و تربیت سے اِس وطن کو انگریز شاطر کے آہنی پنجے سے آزاد کرانے اور مظلوم لوگوں کی دینی، علمی، اخلاقی، رُوحانی، معاشرتی اور سماجی تربیت کے لیے دُنیائے اسلام کے نامور فرزند، عالم ِ ربانی اور مجاہدِ عظیم محمود حسن دیوبندی کو پیدا کیا جن کو دُنیا ''شیخ الہند'' کے نام سے جانتی پہچانتی ہے۔ حضرت شیخ الہند کے مجاہدانہ کردار اور تعلیم و تربیت کے ماحول، آپ کی ذہانت و ذکاوت اور آپ کے لائق و عظیم شاگردوں کو دیکھ کر معاصرین زمانہ آپ کو ''ابوحنیفۂ ثانی'' کہنے پر مجبور ہوگئے۔ جہاں ایک طرف آپ کے حلقۂ تعلیم و تربیت سے محدث، فقیہ، کامل صوفیا، مجاہدین ِ اسلام اور عظیم دانشور پیدا ہوئے( جیسے حضرت مولانا سید انور شاہ کاشمیری، حضرت مفتی کفایت اللہ، حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی، امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی، شیخ العرب والعجم حضرت سید حسین احمد مدنی ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور بانی ٔتبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی، امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد) وہاں دوسری طرف آپ کے مجاہدانہ کردار سے ظالم و جابر انگریزی قوت اتنی کمزور ہوگئی کہ انگریزی حکومت کے ڈِکٹیٹر ہندوستان کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ایسے ناز ک حالات اور حساس زمانہ میں حضرت شیخ الہند کی زندگی نے وفانہ کی۔ آپ اِس عالم فانی سے عالم جاودانی کو چل دیے۔ الامام المجاہد فی سبیل اللہ جانشین ِ شیخ الہند : اِن کے بعد حق جل مجدہ' نے آپ کی جانشینی جیسے عظیم منصب اور آپ کے مشن کی تکمیل آپ کے