ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
درخت بنادیا۔ مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن ہندوستانی پارلیمنٹ کا الیکشن اِس لیے لڑتے تھے کہ ایوان ِ حکومت میں مسلمانوں کی ترجمانی کرسکیں۔ ان کے انتقال پرملال کے بعد پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرنیوالا کوئی نہ رہا۔١٩٦٨ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ نے ہندوستانی پارلیمنٹ (راجیا سبھا) کی رُکنیت قبول فرمالی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایوانِ حکومت حضرت موصوف کی وجہ سے حق و صداقت کی آواز سے کس طرح گونجتا رہا۔ وہ فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ ہو یا مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک ہو یا بابری مسجد کا قضیہ نامرضیہ ہو۔ ہر مسئلہ پر حضرت موصوف دو ٹوک رائے کا اظہار کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے اَسلاف کے سچے جانشین اور اکابر کے ورثے کے راہنما ہونے کے ناطے جمعیت علمائے ہند کے وقار اور اُس کے اثرات میں ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ اُس کے وسائل و ذرائع میں بھی اتنا اضافہ کیا کہ کسی ناگہانی آفت کے آجانے پر چندہ وصول ہونے سے پہلے ہی جمعیت علمائے ہند بروقت متأثرین کی خدمت انجام دے دیتی ہے۔ امیر الہند کی وسعت ِظرفی : اتنے اَوصاف سے متصف اور اکابر کے عظیم ورثہ کے راہنما ہونے کے باوجود اِس حالت میں کہ جمعیت علمائے ہند اور مولانا سید اسعدمدنی لازم و ملزوم یا یک جان دو قالب تھے۔ حضرت موصوف کا مزاج غیر معمولی طور پر شورائی تھا۔ جمعیت کے تمام فیصلے مجلس عاملہ کے اراکین ِ محترم کے صلاح و مشورہ سے ہوتے تھے اور مجلس عاملہ کے اجلاسوں میں بعض اوقات حضرت والا کی آراء سے اختلاف بھی کیا جاتا تھا مگر اس اختلاف ِرائے کے باوجود تمام فیصلے اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کیے جاتے تھے۔ (جاری ہے)