ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے لیے تَخْطِیْطْ کردی تھی الاٹمنٹ کردی تھی کہ یہ یہ پلاٹ ہیں اس طرح سے۔ تو یہ ایک بہت بڑا مرکز بن گیا، اب اس میں مجاہدین اور اُن کے سردار رہتے تھے، اُن کی اولاد، خاندان رہتا تھا۔ ان کے ساتھ غلام بھی رہتے تھے۔ غلاموں میں ہر طرح کے تھے، یہ ایرانی بھی تھے فسادی بھی تھے۔ تو اُس دَور میں بھی ضرورت پڑی اِس چیز کی کہ کوئی بہت بڑا عالم آئے یہاں پر جو پڑھائے کہیں یہ نہ ہو کہ جو اگلی نسلیں ہیں یہ علم سے ناواقف رہ جائیں۔ حضرت ابن مسعود کی کوفہ میں آمد : تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیج دیا اور یہ لکھا اُنہیں اٰثَرْتُکُمْ بِعَبْدِ اللّٰہِ عَلٰی نَفْسِیْ میں نے عبد اللہ بن مسعود کو تمہارے پاس بھیج کر اپنے اُوپر تمہیں ترجیح دی ہے۔ یعنی میں بھیجنا نہیں چاہتا تھا، میں چاہتا تھا میرے پاس رہیں مسائل کے حل کے لیے گویا۔ لیکن یہ کہ تمہاری اہمیت بھی سامنے ہے تو اس لیے میں عبد اللہ ابن مسعود کو بھیج رہا ہوں جو بہت بڑے آدمی ہیں علمی اعتبار سے۔ تو یہ (ابوہریرہ)کہتے ہیں کہ وہاں وہ بھی تو ہیں، حضرت سعد ابن مالک جو مستجاب الدعا ہیں۔ نبی علیہ السلام کے خاص خادم ......... ابن مسعود : ابن ِمسعود رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت قریب رہے ہیں۔ بہت خدمت کی ہے، اتنی خدمت اور وہ خدمت کی ہے جس میں آدمی غفلت کرہی نہیں سکتا۔ اگر کوئی آدمی کسی بزرگ کے جوتے اُٹھالے اور پھر جوتے اُٹھاکر کہیں رکھے یا جوتے لے کر غائب ہی ہوجائے کہ ابھی آتا ہوں میں ۔اور اِس دوران اُس بزرگ کو جوتے پہننے کی ضرورت پڑجائے تو اُسے بڑی تکلیف ہوگی اور بجائے اس کے کہ راحت پہنچے اُسے گویا کوفت ہوگی اور تکلیف ہوگی۔ اِس سے تو بہتر تھا کہ یہیں پڑے رہنے دیتا نہ اُٹھاتا۔ وہ خود اپنے جوتے اُٹھالیتا۔ اسی طرح سے کوئی پتا نہیں ہوتا کہ پانی کی کب ضرورت پڑجائے، کب جی چاہ جائے، وضو کی ضرورت پڑجائے، پینے کے پانی کی ضرورت پڑجائے۔ تو اب حضرت ابن ِمسعود رضی اللہ عنہ اتنے حاضر باش تھے کہ صَاحِبُ طَہُوْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ نَعْلَیْہِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے مبارک اِن کے پاس رہتے تھے اور پانی پاس رہتا تھا، پینے کی ضرورت ہو تو وضو کی ضرورت ہو تو پیش کرتے تھے پانی۔ اور