ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
شاگردوں میں سے جس جلیل القدر شاگرد کو چنا۔ اُس کے بارے میں آپ اپنی زندگی میں ہی فرماچکے تھے کہ ''وہ میرے قلب و جگر کی دھڑکن کی مانند ہے'' اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قلب و جگر کو جسم میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور رئیس الاعضاء کا مقام حاصل ہے۔ اللہ کریم نے حضرت شیخ الہند کی فرمائی ہوئی تشبیہ کے مطابق حضرت اقدس شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کو آپ کی جانشینی کے لیے منتخب کیا۔ اِس انتخاب کی توصیف کا اظہار اللہ تعالیٰ نے آپ کے معاصرین زمانہ اُمت مسلمہ کے علمائے کرام سے بھی کرلیا ،یہی وجہ ہے کہ آپ کو متفق علیہ ''جانشین ِ شیخ الہند'' کہا جاتا ہے۔ جس عظیم مشن کے فکر کی بنیاد حضرت مجدد الف ثانی اور امام الحکمت شاہ ولی اللہ نے رکھی اور جس تحریک کا عملاً آغاز حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے کیا، جس مشن کے لیے ہزاروں نفوس قدسیہ شہید ہوئے، اُس کی تکمیل اللہ نے حضرت ِ اقدس شیخ الاسلام کے زمانہ میں کروادی۔ انگریز ظالم و جابر آپ کے زمانہ میں ہی ہندوستان کو چھوڑکر چلاگیا۔ تواضع و بے نفسی کے کوہِ گراں حضرت سید مدنی نے تقسیم ِ ہند کے بعد مجبور و مظلوم و محروم و بے سہارا مسلمان (جو تقسیم ِملک کی وجہ سے ہر طرح کی اپنی اجتماعی قوت کھوچکا تھا) کی کفالت و سرپرستی اِس طرح فرمائی جس طرح کہ حقیقی والد اپنی حقیقی اولاد کے لیے فکر مند ہوتا ہے حتّٰی کہ آپ اِس فکر و غم و الم میں ١٩٥٧ء میں اِس دارِ فانی سے رحلت فرماگئے۔ انتخاب جانشین ِ شیخ الاسلام : آپ کے بعد سرزمین ِ ہند کے عظیم محدث شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا نے آپ کے عظیم و لائق و فائق بڑے فرزند حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی کو آپ کے بیسیوں خلفاء کے باہمی مشورہ و اتفاق رائے سے آپ کا جانشین قرار دیا۔ خطاب ''فدائے ملت'' کا پس منظر : اِس جانشین کی شخصیت ایسے شجر سایہ دار کی سی تھی جو ساری اُمت کے لیے رحمت تھی۔ بلاشبہ جہاں وہ اُمت مسلمہ کے لیے شیخ ِ طریقت اور رہبرِ شریعت تھے تو وہاں ایسے عالمی مسلم راہنما تھے جو زندگی کے ہر شعبے میں پوری اُمت کی راہنمائی فرماتے رہے۔ آپ مجاہدانہ عزم و حوصلہ رکھنے والے عوامی قائد بھی تھے، اپنی جان کو خطرات