ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
کتاب و سنت کو چھوڑکر رسوم و بدعات کو داخل کرلیا ، اولیاء اللہ کو انبیاء کے درجہ سے متجاوز کردیا، انبیاء کو خدا کے درجہ سے آگے بڑھادیا۔ دوسرا جزء : عبادات کا ہے۔ اِن کے متعلق معلوم ہے کہ نماز کی پابندی کتنے لوگ کرتے ہیں، روزہ کتنے لوگ رکھتے ہیں،زکوٰة کتنے لوگ ادا کرتے ہیں، حج کتنے لوگوں نے ادا کیا۔ تیسرا جزء : معاملات کا ہے۔ معاملات کی حالت تو یہ ہے کہ بڑے بڑے دیندار لوگ معاملات کو دین ہی نہیں سمجھتے، حالانکہ معاملات کا دین میں داخل ہونا بدیہی ہے۔ چوتھا جزء : معاشرت ہے۔ اِس کی جو گت بنائی ہے سب ہی واقف ہیں۔ شادی، غمی میں جس طرح جی چاہتا ہے کرتے ہیں، نہ اُن کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت، نہ فتویٰ لینے کی ضرورت، جو کچھ بیگم صاحبہ نے کہہ دیا وہی کرلیا، گویا وہی شریعت کی مفتی ہیں۔ پانچواں جزء : اَخلاق ہے۔ اس میں حالت یہ ہے کہ دیندار لوگوں کو بھی اِس کی فکر تو ہوتی ہے کہ سارا لباس، داڑھی شریعت کے موافق ہو لیکن اَخلاق کو دیکھئے تو اِس قدر خراب کہ گویا شریعت کی ہوا بھی نہیں لگی (وعظ تفصیل الدین۔ طریق النجاة ملحقہ دین و دُنیا ص ١٥ تجدید تعلم ص٢٢٧) بقیه : حضرت فاطمہ کے مناقب اور وجہ معقول ہے اور اجتماع وجوہات تسمیہ مذموم نہیں بلکہ محمود ہے۔ واضح ہوکہ بخاری کی صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمیع بنات آدم پر حیض مسلط کیا گیا ہے جس کے عموم میں حضرت فاطمہ بھی داخل ہیں اور حیض و نفاس باہم متلازم ہیں جیساکہ اہل تجربہ و اہل طب پر مخفی نہیں اور جو حدیث یہاں ذکر کی گئی وہ ضعیف ہے پس بخاری کی حدیث مقدم کی جاوے گی لیکن اگر حدیث مذکور بسند حسن ثابت ہوجاوے تو مخصص حدیث بخاری ہوجاوے گی پس علماء سعی فرماویں شاید کوئی سند مجتمع بہ مل جاوے اِسی خیال سے یہ درج کردی گئی ہے۔ (جاری ہے)