ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2006 |
اكستان |
|
کرلی جائے، اِس پر حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے اس سے کچھ فرمایا تو اس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ اِسے پکڑو۔ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے ،یہ لوگ نہ پکڑسکے''۔ اس کے علاوہ بھی اس نے بدزبانی کی ،جو بخاری شریف کی اسی روایت میں ہے ۔غرض آل صدیق اکبر اور آل عمر فاروق کے ساتھ ان لوگوں کا یہ رویہ تھا، یہ حالات حضرت ابن عمر کے سامنے تھے اور جیساکہ گزرچکا ہے وہ پہلے سے ہی نظروں میں آچکے تھے اس لیے اِن کا بیعت نہ ہونا مشکل تھا، سوائے اس کے کہ وہ بھی کہیں اور چلے جاتے اور چھپ جاتے۔ ایسا اُنہوں نے نہیں کیا۔ ان حالات میں آپ ہی بتائیں کہ صحابۂ کرام کا یزید کی امارت پر بیعت کرنا کیا اُس کے شرف کی وجہ سے ہے یا اُس کے فتنہ سے بچنے کے لیے ہے؟ اہل مدینہ کے قلوب میں یزید سے محبت نہ تھی اور اطلاعات ملنے کے بعد شدید نفرت پیدا ہوگئی۔ اُنہوں نے بیعت فسخ کردی، اُس کے نائب اور اہل خاندان کو مدینہ پاک سے نکال دیا۔ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وَاَمَّا مَافَعَلَہُ بِاَھْلِ الْحَرَّةِ فَاِنَّھُمْ لَمَّا خَلَعُوْہُ وَاَخْرَجُوْا نُوَّابَہ وَعَشِیْرَتَہ اَرْسَلَ اِلَیْھِمْ مَّرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ یَّطْلُبُ الطَّاعَةَ فَامْتَنَعُوْا فَاَرْسَلَ اِلَیْھِمْ مُسْلِمَ بْنَ عُقْبَةَ الْمُرِّیَّ وَاَمَرَہ اِذَا ظَھَرَ عَلَیْھِمْ اَنْ یُّبِیْحَ الْمَدِیْنَةَ ثَلَا ثَةَ اَیَّامٍ وَّھٰذَا ھُوَ الَّذِیْ عَظُمَ اِنْکَارُ النَّاسِ لَہ مِنْ فِعْلِ یَزِیْدَ وَلِھٰذَا قِیْلَ لِاَحْمَدَ اَنَکْتُبُ الْحَدِیْثَ عَنْ یَّزِیْدَ قَالَ لَا وَلَاکَرَامَةَ اَوَ لَیْسَ ھُوَ الَّذِیْ فَعَلَ بِاَھْلِ الْمَد ِیْنَةِ مَا فَعَلَ ! (منھاج السنة ص٢٥٣ ج٢) ''رہا وہ جو اُس نے اہل حرہ کے ساتھ کیا تو جب اہل مدینہ نے اسے حاکم ماننے کی بیعت فسخ کردی اور اُس کے نائبوں اور اہل خاندان کو مدینہ شریف سے نکال دیا تو اُس نے بار بار اِن کے پاس پیغام بھیجے کہ وہ اِس کی طاعت قبول کریں اور وہ اِس کی بات ماننے سے رُکے رہے۔ تو اس نے ان کے پاس مسلم بن عقبہ مرّی کو سالار جیش بناکر روانہ کیا اور اسے یہ حکم