ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
یہ خبر اخبارات میں نمایاں کرکے شائع نہیں کی گئی تھی حالانکہ اس کو بہت نمایاں کرکے چھاپنا چاہیے تھا، دیگر یہ کہ اگر غیر جانبدار ذرائع اِن حالات کا جائزہ لیں تو اعداد و شمار اِس سے کہیںزیادہ سنگین ہونگے۔ اس خبر کے پس ِپردہ انتہائی بھیانک مستقبل سے آنکھیں چار ہونے کا عندیہ مل رہا ہے۔ ملک کا موجود ہ سرمایہ دارانہ نظام جس کی بنیاد سُود پر قائم ہے اوراس کی بدولت مالدار امیر تر اور غریب غریب تر ہو تا چلا جا ر ہا ہے، اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے جس کے نتیجہ میں طبقاتی جنگ اور خون ریزی پورے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ان حالات میں محروم غریب طبقہ سرپر کفن باندھ لیتا ہے جبکہ مالدار طبقہ بے گوروکفن رہ جاتا ہے۔ اسلام کا عادلانہ نظام ہی ہرطبقہ کو اس کا جائز حق دلا کر محرومی سے نکالتا ہے اور معاشرہ کو صحت بخش ماحول عطا کرتا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ : ''حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااوروہ کعبة اللہ کے سائے میں تشریف فرماتھے ۔جب مجھ کو دیکھا تو فرمایا کہ ربِ کعبہ کی قسم وہ برباد ہو گئے۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا وہ مالدار لوگ ہیں، سوائے اُن مالداروں کے جو آگے پیچھے دائیںبائیں مال کو خوب خرچ کریں مگر ایسے مالدار کم ہیں ''۔( مشکٰوة شریف ص١٦٤ ج١ ) یہ حدیث شریف سرمایہ دار اور حکمران طبقہ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے ۔غربت کے باعث ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور بدامنی انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا حق ہے، خاص کر حکمرانوں پر اپنی دُکھی ر عیت کے دُکھ درد کو دُور کرنا لازم ہے ،وہ دنیا میں بھی اس کے جوابدہ ہیں اورآخرت میں بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانانِ عالم پر رحم فرمائے۔