ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
پر عمل کرو،دنُیاوی منفعت حاصل کرنے کی خاطر اِن پر عمل نہ چھوڑو۔ میری آیات یعنی احکام کے بدلے میں دنیا نہ اختیار کرد، تو دینی امور پر اُجرت لینے کے مسئلہ سے اس آیت کا تعلق نہیں۔ (٢) اس آیت مبارکہ کی وضاحت دوسری آیات سے ہوتی ہے سورۂ بقرہ میں ہے فَوَیْل لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ لِیَشْتَرَوْا بِہ ثَمَنًا قَلِیْلاً ''ہلاکت ہے ان کے لیے جو ا پنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ (کتاب کا مضمون) اللہ کی طرف سے ہے اس لیے ایسا کرتے ہیں تاکہ اس کے عوض میں ثمن قلیل خریدیں ''۔اور سورہ آل عمران میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب سے عہد لیا تھا کہ کتاب اللہ کے احکام کھول کر بیان کروگے اور ہرگز اس کو نہ چھپائو گے فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُہُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِہ ثَمَنًا قَلِیْلاً '' تو انہوں نے اس عہد کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تھا اور اس عہد کے عوض ثمن قلیل خریدا''۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ ان کا عمل یہ تھا کہ وہ غلط مسائل اور فتاوٰی لکھ دیتے تھے اور کہتے یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان کے عوض ثمن قلیل لیتے اور حق اور صحیح کو چھپالیتے اور باطل کو حق اور حق کو باطل کہہ دیتے تاکہ ثمن قلیل حاصل ہو۔ اور اسی عمل سے وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰ یٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً میں اُن کو منع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ لوگوں کی مرضی اور اُن کی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کی آیات کا مطلب غلط بتلاکر یا چھپا کر لوگوں سے پیسے نہ لو اور ہم بھی یہی کہتے ہیں یہ کام باجماعِ اُمت حرام ہے باقی رہی یہ بات کہ کس کو اللہ تعالیٰ کی آیات صحیح صحیح بتلا کر یا پڑھا کر اس کی اجرت لینا کیسا ہے ؟ اس کا تعلق آیت مذکورہ سے نہیں ہے (معارف القرآن ص٢٠٧ ج١ ) ۔ علامہ محمود آلوسی رحمہ اللہ (جن کو منور صاحب بھی علامہ آلوسی جیسے عقیدت مندانہ الفاظ سے ذکرکرتے ہیں ) فرماتے ہیں کہ اس آیت سے بعض نے تعلیم کتاب اللہ اور تعلیم علم کی اُجرت ناجائز ہونے پر دلیل لی ہے لیکن ولا دلیل فی الاٰیة علی ما ادعاہ ھٰذا الذاھب اس آیت میں اس مذہب والے کے اس دعوے پر کوئی دلیل نہیں ہے (رُوح المعانی ص٢٤٥ ج١)۔ (٣) اگر بالفرض مان لیں کہ اس آیت میں دینی امور پر اُجرت نہ لینے کا حکم ہوا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ حکم یہود کو تھا اور جس طرح سجدۂ تعظیمی کا ذکر (واقعۂ آدم علیہ السلام میں اور واقعۂ یوسف علیہ السلام میں)قرآن مجید میں ہے اور اس کی ممانعت قرآن مجید میں نہیں حدیث نبوی میں ہے جس سے سجدۂ تعظیمی اس اُمت میں حرام قراردیا گیا اسی طرح احادیث طیبہ میں نبی کریم ۖنے اُجرت کی اجازت دی تو اس حکمِ ممانعت پر عمل نہ ہوگا۔