ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
'' اس روایت میں کسی خاص فرد یا مُردوں کی جانب سے قربانی کا ذکر نہیں بلکہ اُمت کی جانب سے قربانی کا ذکر ہے جو عام ہے ''۔ جب عام ہے زندہ مردہ سب کو شامل ہے تو اِس سے زندہ اور مردہ سب کو ا یصالِ ثواب کرنا ثابت ہوتا ہے اور فقہی کتب میں بھی تحریر ہے کہ زندہ کوبھی ایصال ِثواب کیا جا سکتا ہے اور مردہ کوبھی البتہ مردہ زندہ سے زیادہ محتاج ہے ۔ (ردالمحتار ص ٢٥٦ ج٢۔ کفایت المفتی ص ١٢٦ ج٤ ۔کتاب الروح ص ١٧٧۔ردالمحتار ص ٦٦٦ج١) ۔ اس قربانی والی روایت سے ایصالِ ثواب پر استدلال کرتے ہوئے آیت لیس للانسان الا ماسعٰی اور اس روایت میں تطبیق دیتے ہوئے علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں : ''یہ روایت بہت سے صحابہ سے مروی ہے اوراس کے مأخذ پھیل چکے ہیں فلایبعد ان یکون مشہورا یجوز تقیید الکتاب بہ بمالم یجعلہ صاحبہ لغیرہ '' تو بعید نہیں کہ یہ روایت حدیث مشہور کی تعریف میں داخل ہو جس کے ذریعہ کتاب اللہ کی آیت لیس للا نسان الا ما سعٰی کو مقید کرنا جائز ہے کہ آیت میں وہ عمل مراد ہے جو کرنے والا دوسرے کے لیے نہ ٹھہرائے (اور غیر کے لیے ٹھہرائے تو اس کا ثواب پہنچتا ہے ) ''(ردالمحتار ص٢٥٧ ج٢ )۔ نمبر ٩ : نبی کریم ۖ نے مُردوں کے پاس سورۂ یٰسین پڑھنے کا حکم فرمایا ہے ۔حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا اقرء و علے موتا کم سُورة یٰس '' اپنے مُردوں پر سور ہ ےٰسین پڑھا کرو (ابودائود ص ٤٤٥ ج٢۔ شرح الصدور بحوالہ ابن ابی شیبہ واحمد ونسائی وغیرہم )۔ مُردے عام ہیں فی الحال ہوں یا فی الماٰل یعنی چاہے وہ ہوں جن پر حالتِ نزع طاری ہو یا وہ جو قبرستان میں دفن ہوچکے۔ علامہ ابن عابدین رد المحتار ص ٦٦٦ ج ٢ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو کر سورةیٰسین پڑھ کر اس کا ثواب مُردوں کو بخشے تو اللہ ان کا عذاب ہلکا کردے گا اور اس کومُردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں حاصل ہوں گی ۔ اس لیے فقہ حنفی میں قبرستان میں سورةیٰسین پڑھنے کا حکم موجود ہے۔(در مختار ص ١٣٥۔ ردالمختار ص٦٦٦ ج ٢۔ بحرالرائق ص ١٩٦ ج٢۔ نورالایضاح مع المراقی ص١٥٢ ) تو قرآن مجید پڑھنے میں چونکہ میت کو فائدہ ہے اس لیے آپ ۖ نے حکم فرمایا ہے ورنہ فعل ِعبث کا حکم کرنا لازم آتاہے تو یہ فعل ایک کا ہے اور فائدہ دوسرے کو حاصل ہو رہا ہے۔ ان مذکورہ نمبرات میں جتنی احادیث مذکورہ ہوئیں وہ سب اس بارے میں واضح دلیل ہیں کہ'' ایک کے عمل سے دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے ''۔جب یہ اصول روایات سے ثابت ہوگیا تو ثابت ہوا کہ ایصالِ ثواب جائز بلکہ مستحب ہے اور اس سے میت کو بہت فائدہ پہنچتاہے ۔