ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
ابن مسعود اور قرآن : اور عبداللہ بن مسعود وہ ہیں کہ جن کے بارے میں آتا ہے کہ میں اپنی اُمت کے لیے اس چیز پر راضی ہوں جس پر ابن مسعود راضی ہوں اور فرمایا کہ جو قرآن پاک تروتازہ جیسے کہ اُترا ہے ویسے پڑھنا چاہے تو چاہیے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت پر پڑھے تو آقائے نامدار ۖ کی بہت تعریفیں ہیں اِن کے بارے میں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اِن سے بڑا تعلق تھا پاس رکھنا چاہتے تھے، فقاہت میں درجہ اتنا بڑا ہے کہ چاروں خلفاء کے بعد کتابوں میں اِن کا نام لکھا جاتا ہے تو علمی اعتبار سے اتنا بلندپا یہ ہے اِن کا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب کوفہ آباد کیا تو جتنے مجاہدین تھے یہاںعراق کی سائیڈ میں یہ آذربائیجان کا علاقہ، خراسان کا علاقہ، ایران کا ،افغانستان کا ،پھر نیچے سندھ کا حصہ، مکران کا کچھ حصہ جو کہ بلوچستان میں ہے ۔ مکران ١٨ھ میں فتح ہوگیا تھا : اور یہ مکران ١٨ھ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح ہوگیا تھا تو اِن علاقوں میں جو حضرات تھے عرب اور صحابہ کرام اُن کو آپ نے تحریر فرمایا کہ ایسی جگہ جہاں کی آب وہوا یہاں (عرب) کی آب وہوا سے ملتی جلتی ہو وہ انتخاب کرو اور اُس کو تم مرکز بنا لو ،توکوفہ کو پسند کیا گیا اور کوفہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے الاٹمنٹ کردی زمینوں کی کیونکہ جوزمین کسی کی ملک نہیں اس کی اصل مالک حکومت ہوتی ہے۔ اس کو حکومت نے اِن حضرات کودے دیا تو انھوں نے یہاں اپنے مکانات وغیرہ بنالیے رہائش اختیار کرلی تو یہ پندرہ سو (١٥٠٠) صحابہ کرام کی تعداد شمار کی گئی تو یہ بہت بڑا علاقہ تھا جسے یہ کنٹرول کرتے تھے، تو بصرہ اور کوفہ یہ اُن کے گویا فوجی ہیڈ کوارٹر تھے ایک طرح کے، تو اس میں وہ رہے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ جب آئے ہیں مدینہ منورہ سے تو اُن کے ساتھ جو صحابہ کرام آئے ہیں وہ بھی یہاں رہے اس طرح ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے پندرہ سو (١٥٠٠) ہوگئی۔ اب یہاں کی معلومات جو ہیں کوفہ کی وہ بہت زیادہ ہیں اما م بخاری کہتے ہیں کہ میں فلاں جگہ اتنی دفعہ گیا فلاں جگہ اتنی دفعہ گیا ۔ امام بخاری اور کوفہ : کوفہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لا احصی مادخلت الکوفة میںشمار نہیں کرسکتا جتنی دفعہ میں کوفہ گیا ہوں۔ قرا ء ة سبعہ ،عشرة اور کوفہ : اور قراء ت سبعہ میں سے تین قاری جو ہیں فقط کوفہ کے ہیں اور قرا ء ت عشرة جو ہیں اُن میں سے چار قاری فقط