ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
بتائوں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچائو کرے اور تمہیں بھر پور روزی دلائے ۔وہ یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دعاء کرو رات میں اور دن میںکیونکہ دعا مومن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے۔ وعن سلمان الفارسی قال قال رسول اللّٰہ ۖ لا یردّ القضاء الا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البرّ۔ ( ترمذی ) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم ۖ نے فرمایا تقدیر کو دعا کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بدلتی اور عمر کو نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بڑھاتی۔ فائدہ : شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ یہ اندازِ بیان اس چیز کو ظاہر کررہا ہے کہ بلا اور معصیت کے دفع کرنے میں دعا کو خاص تاثیر حاصل ہے جو کسی اورچیز کو حاصل نہیں ۔اگر آدمی پر کسی مصیبت کے آنے کا اندیشہ ہو اور اس کو دُعا کی توفیق ہو جائے تو پھر اس ذریعہ سے وہ مصیبت دور اور دفع ہو جائے گی اور وہ اس سے نجات پاجائیگا۔ الدعاء مفتاح الرحمة ۔ والو ضوء مفتاح الصلٰوة ۔ والصلٰوة مفتاح الجنة۔ (جامع الصغیر للسیوطی) دُعاء رحمت کی کنجی ہے اور وضو نماز کی کنجی ہے اور نماز جنت کی کنجی ہے۔ دُعاء انسانی فطرت کا تقاضا ہے : انسان دنیاوی خوشحالی اور مادی ترقی کی بناپر خواہ اپنے رب سے کتنا ہی دُور چلاجائے اور غفلت ونسیان کے کتنے دبیز پردے اس کے دل پر پڑ جائیں ۔بہر حال مصائب کے ہجوم اور مبتلا آلام ہونے کے وقت بے اختیار ،بے ساختہ فریاد اور دُعا کے لیے اُس کے ہاتھ اُٹھ ہی جاتے ہیں ۔ دل مضطرب سے معاً الفاظ پکار بن کر نکلتے ہیں ۔بے ساختگی کے عالم میں نکلی ہوئی یہ آواز دعا کہلاتی ہے ۔مصیبت میں پکارنے کی جبلت ایک مسلمہ حقیقت ہے انسان اپنے اس جبلی ادراک کے تحت ایک برتر ہستی کے سامنے اپنے عجز کا اعتراف کرتا ہے اور اُسے فریاد رَس سمجھ کر امداد و اعانت کا طالب ہوتا ہے ۔قرآن حکیم نے اس فطری تقاضے کو کئی جگہ بیان کیاہے۔ فرمایا : اذا مسَّ الانسان ضردعاربہ منیباً الیہ ۔ (الزمر، آیت ٨ ) جب انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اپنے پالنے والے کو پکارتا ہے اور ہمہ تن اسکی طرف متوجہ ہو جاتاہے۔