ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
اختلاف مختلف اوقات اور حالات کے اعتبار سے ہے ۔جب آپ کو بال کاٹنے کا موقع نہ ملتا تو وہ مونڈھوں تک پہنچ جاتے اور جب آپ بال تراش لیتے تو کانوں کے نصف حصہ تک رہ جاتے ۔ جناب رسول اللہ ۖ کی داڑھی مبارک کابیان : (١٥) عن علی ابن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ قال :'' کان رسول اللّٰہ ۖ ضخم الرأس واللحیة ''۔ ( دلائل النبوة ١/٢١٦ ) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام بڑے سراور گھنی داڈھی والے تھے۔ (١٦) عن محمد بن علی عن ابیہ قال : '' کان رسول اللّٰہ ۖ کث اللحیة '' (دلائل النبوة ١/٢١٦ ) حضرت محمد بن علی اپنے والد سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔ تنبیہ : اعفا اللحیة واجب عند جمیع الا ئمة وھو من سنن الأنبیاء والمرسلین۔ وأمربہ النبی ۖ امتہ مؤکدا بقولہ '' انھکو الشوارب واعفواللحی''۔ (بخاری شریف ٥٨٩٣ ) وحلق اللحیة او قصھا مادون القبضة لا یجوز لأحد، قال فقیہ عصرہ العلامة محمد بن عابدین الشامی فی رد المحتار : واما الأخذ منھا وھی مادون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ احد۔( رد المحتار، ٣/٣٩٨) تنبیہ : تمام ائمہ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب ہے اور یہی تمام انبیاء اوررسولوں کی سنت ہے اور جناب رسول اللہ ۖ نے اپنی امت کو اسی کا حکم فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا : مونچھوں کو کاٹواور داڑھی کو بڑھائو۔جبکہ داڑھی کو مونڈنا، ایک مشت سے کم کترواناکسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ۔ فقیہ العصر علامہ محمد عابدین شامی رحمہ اللہ نے ردا لمحتار میں تحریر فرمایا ہے کہ داڑھی کو ایک مشت سے کم کتروانا جیسا کہ اہلِ مغرب اور ہیجڑے کرتے ہیں کسی نے بھی اِس کو مباح قرار نہیں دیاہے۔