ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
دُعاء کی حقیقت : اس کی حقیقت نیاز مندی ہے یعنی اپنی حاجت اور احتیاج کو پیش کرنا کہ اے اللہ ! ہمیں یہ دیدے۔ آیت اور حدیث دونوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعاء عین عبادت ہے خواہ کسی قسم کی ہو دینی ہو یا دنیوی ہو مگر ناجائز امر کے لیے نہ ہو، خواہ چھوٹی سی چیز کی ہو یا بڑی چیز کی ۔ حدیث شریف میں یہاں تک آیاہے کہ اگر جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو اور جتنی عبادتیں ہیں اگر دنیا کے لیے ہوں تو عبادت نہیں رہتیں مگر دُعا ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر دنیا کے لیے ہی ہو تب بھی عبادت ہے اور ثواب ملتا ہے ۔مثلاً مال مانگے یا اور کوئی دنیوی حاجت مانگے جب بھی ثواب کا مستحق بنے گا۔ حدیث شریف میں ہے من لم یسئل اللّٰہ یغضب علیہ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اُس پر اللہ تعالیٰ غصہ کرتے ہیں جو برابر مانگتارہے اُس سے خوش ہوتے ہیں۔ ہر تدبیر میں انسان اپنے جیسے کے سامنے احتیاج کو ظاہر کرتا ہے خواہ قالاً ہو یا حالاً اور دُعا میں ایسے سے مانگتا ہے جو سب سے زیادہ کامل القدرة ہے اور جس کے سب محتاج ہیں اور عقل بھی یہی کہے گی کہ جو سب سے زیادہ قادر تر ہے اُسی سے مانگنا اکمل وانفع ہے۔ پس یقینا یہ تدبیر (دُعائ) ہرتدبیر سے بڑھ کر ہے کیونکہ اور تدبیر بھی حق تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ ہی سے کامیاب ہو سکتی ہے ۔توجو شخص حق تعالیٰ سے مانگے گا وہ ضرور کا میاب ہوگا ۔دُعا صرف امور غیر اختیاریہ کے ساتھ خاص نہیںجیسا کہ عام خیال ہے کہ جو امرااپنے اختیار سے خارج ہوتا ہے وہاں مجبور ہوکر دُعا کرتے ہیں ورنہ تدبیر پراعتماد ہوتا ہے بلکہ امور اختیاریہ میں بھی دُعاء کی سخت ضرورت ہے ۔اصل کا م تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔ یہ اسباب وعلامات محض بندوں کی تسلی و دیگر حکمتوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ ایں سببہا در نظر پردہاست در حقیقت فاعل ہر شئے خداست (شریعت اور طریقت ص١٤٦،١٤٧) ضرورتِ دُعاء : کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس کو صلاح و فلاح کی ضرورت نہ ہو ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دارین کی صلاح و فلاح کے واسطے اسباب وابواب موضوع فرمادئیے کہ اہلِ حاجت ان سے مددلیں اور عقبات ومہالک سے نجات پائیں ۔ان اسباب میںسے بجز دعا کے جتنے اسباب ہیں اُن کے سببات خاص خاص اُمور ہیں چنانچہ اسبابِ طبیعہ کا (مثل زراعت