ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
کوفہ کے ہیں باقی ساری دنیا میں سے، اور دوسرا شہر کوئی نہیں ہے جہاں اتنی بڑی تعداد صحابہ کرام کی رہی ہو جتنی بڑی تعداد کوفہ میں رہی ہے تو اس بناء پر کوفہ بہت بڑا علمی مرکز ہے۔ امام ابو حنیفہ اور کوفہ : امام اعظم رحمة اللہ علیہ یہاں پیدا ہوئے انھوںنے صحیح علم حاصل کیا شیعوں سے بچ کر اور باطل فرقوں سے بچ کر صحیح چیز حاصل کی اور صحیح پر جمے رہے۔ امام ابو حنیفہ کی نصیحت ... .. اہلِ تشیع سے بچو : بلکہ آتا ہے کہ عبداللہ بن مبارک رحمةاللہ علیہ بہت بڑے حضرات میں سے ہیں بہت بڑے مجاہدتھے وہ امام اعظم رحمةاللہ علیہ کے شاگرد بھی تھے وہ کہتے ہیں میرے سامنے ابو عصمہ نے پوچھا ممن تأمرنی ان اسمع الآثار کس سے میں حدیثیں سنو تو انھوں نے جواب دیا من کل عدل ......الاالشیعة ہر عادل آدمی سے سن سکتے ہو اگر بدعتی بھی ہے مگر معتدل ہے وہ،تو اس سے حدیث لے سکتے ہو سوائے شیعہ کے۔فان اصل عقید تھم تضلیل اصحاب محمد ۖ ان کا اصل عقیدہ یہ ہے کہ وہ جناب رسول اللہ ۖ کے صحابہ کرام کو گمراہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ چاپلوسی کرنے والے علماء سے بھی حدیث نہ لی جائے : ومن اتی السلطان طائعاً جو بادشاہ کے پاس جائے اطاعت (اور چاپلوسی) کرتا ہو، اطاعت کے انداز میں جائے جھک کر جائے اس سے بھی مت لینا حدیث اور ارشاد فرمایا اَما انی لا اقول انھم یکذ بون میں یہ نہیں کہتا کہ یہ جا کر جھوٹ بولتے ہیں بادشاہ سے اویأمرونھم بما لا ینبغی یا انھیں ایسی باتوں کا حکم دیتے ہیں جو نہ ہونی چاہیں نامناسب باتوں کا مشورہ دیتے ہیں یہ بھی میں نہیں کہتا لیکن خرابی یہ ہے وطّؤالھم ان (بادشاہوں ) کے واسطے ان لوگوں نے زمین ہموار کردی حتی انقادتِ العامة بھم حتی کہ عام لوگ جو تھے وہ سمجھنے لگے کہ جو بادشاہ کہتا ہے وہ ٹھیک ہے۔ صحیح اور غلط، سچ اور جھوٹ ،باطل اور حق کی تمیز گویا آپ لوگ نہیں کرسکتے۔ دیکھتے ہیں بڑا آدمی جا رہا ہے دیندار آدمی جا رہا ہے اور اس میں یہ خوبی ہے اس لیے یہ ضروردین ہی کی بات کرتا ہوگا ضرور سچا ہوگا فرمایا فھذان لا ینبغی ان یکونامن ائمة المسلمین یہ دوطبقے ایسے ہیں کہ جنہیں حدیث کے، اسلام کے، مسلمانوں کے ائمہ میں شمار نہیں کرنا چاہے ان سے حدیث نہ لیں ۔اب امام اعظم رحمة اللہ علیہ میں اجتہاد ، فقاہت ، سمجھ کی گہرائی یہ خدا کی دَین ہے اور ان کی بات سب کو ماننی پڑتی ہے ۔