ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
و نزدیک کے رہنے والے جانتے ہوں گے کہ اس مدرسہ کی بناء دیوبند والوں نے ڈالی ۔اس امر میں وہ سب کے امام ہیں ہر چند باہر کے صاحب اس کارِ خیر میں شریک ہوئے مگر جو کچھ ہے وہ دیوبند والوں کا ہی طفیل ہے اور اس وجہ سے اگر یوں کہا جائے کہ جتنااور سب کو اس کارِ خیر کا ثواب ملے گا اتنا ہی تنہا دیوبند والوں کو ملے گا تو عین مطابق قول نبوی ۖ من سن سنة حسنة فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا الی یوم القیامہ اوکما قال ہوگا۔ واقعی اہلِ دیوبند نے وہ کام کیا ہے کہ قیامت تک صفحۂ ہستی پر ان کی یادگار رہے گی ۔یہ نامی مدرسہ ہمیشہ ہمیشہ اہلِ دیوبند کی یادگاری کا باعث رہے گا چونکہ اور اکثر مدارس اس مدرسہ کی دیکھا بھالی مقرر کئے گئے ہیں یا کئے جاتے ہیںتو کوئی مدرسہ اس سے ترقی کرپائے ،پر اہلِ عقل کے نزدیک وہ دیوبند ہی کا پرتو ہوگا اور اس پرجب یہاں کے باشندوں کی شکستہ حالی اورپریشانی روزگاری پر نظر کی جائے تویہ ان کی ہمت کی بات کسی طرح ان کاموں سے کم نہیں جواہلِ سلطنت نے بر فاہِ عام کیے ہیں بایں ہمہ کھانے کی امداد میں طالب علموں کے ساتھ جو دل سوزی یہاں کے باشندوں نے کی وہ اتنی نہیں کہ ہم زباں سے ادا کریں۔ فرشتوں نے اگر طالبانِ علوم کے قدم کے نیچے پر بچھائے تو انہوں نے ان کے سرپر دستِ شفقت رکھا، ماں باپ کو بھلا دیا، دیوبند کو مثل گھر بناد یا ۔یہ وہ خاص بات ہے جس میں شر کاء چندہ میں سے کوئی ان کا شریک وسہیم نظر نہیںآتا اس کے عوض میں خدا وند کریم یہاں کے باشندوں کو دارین میں جزائے کامل عطا کرئے۔ بالجملہ اس دولت بے زوال سے بدولت اہلِ دیوبند عالم مستفیدہے ۔'' (تاریخ دارالعلوم ص ١٦٩ و ص ٧٠ ١ ج ١) دارالعلوم کے لیے وسیع جگہ : تذکرة العابدین میں بناء جامع مسجد کے ذیل میں تحریر ہے : ''بعض کام مسجد کے جو اَب تک باقی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت بنائے جامع مسجد کے یہ بات قرار پائی تھی کہ مسجد کی سہ دریوں میں مدرسہ رہے گا ، علیحدہ نہیں بنوایا جائیگا مگر کئی سال کے بعد اہلِ شورٰی کا یہ مشور ہ ہوا کہ مدرسہ علیحدہ بنوایا جاوے ۔ اس وقت حاجی صاحب نے کہاکہ تم نے مسجد کا کام کیوں بڑھوادیا ۔ مسجد میں سہ دریوں کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔