ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
فرمایا صدوق اور ثقہ ہے مگر جب کسی اور راوی کے خلاف روایت ہو تو غیر ہمیں زیادہ پسندیدہ ہوگا۔ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کوفیوں کی حدیث کے سب سے بڑھ کر (سفیان سے روایت کرنے والے راویوں میں سے ) اعلم ہیں ،امام احمد فرماتے ہیں ابو اسحٰق سے روایت میں زھیر سے شریک اثبت ہیں ۔امام یحیی فرماتے ہیں ابو اسحق سے روایت میں اسرائیل سے ہمیں زیادہ پسند ہیں ۔ابوحاتم فرماتے ہیں صدوق ہے ابوالاحوص سے زیادہ مجھے پسند ہے ہاں اس کی کچھ غلطیاں ہیں ۔ابن ابی حاتم نے امام ابوزرعہ سے پوچھا تو فرمایا اس سے حجت لی جائے ۔امام احمد فرماتے ہیں شریک عاقل صدوق اور محدث ہے شرک اور بدعت کرنے والوں پر سخت تھا ۔امام ذہبی فرماتے ہیں بہت بڑا علم کا خزانہ تھا ۔امام نسائی نے فرمایا لاباس بہ ہے۔ امام مسلم نے متابعت میں اس کی روایت لی ہے (میزان الاعتدال ص ٢٦٩تا ٢٧٤ ج٢ )۔ابن حجر فرماتے ہیں صدوق ہے غلطی بہت کرتا ہے عادل فاضل عابد اور بدعتیوں پرسخت تھا جب کوفہ میں قاضی بنا تو حافظہ میں کمزوری آگئی (تقریب) بہرحال شیعہ نہیں ہے امام ذہبی نے شیعیت کا الزام رد کیا ہے اور جوعادل ہے وہ جھوٹ نہیں بولتا جو بدعتیوں پر سخت ہے وہ خود شیعہ اور بدعتی کہاں سے ہے ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف فیہ راوی ہے اور مختلف فیہ کی روایت حسن ہوتی ہے۔ (iii) ابوالحسناء مجہول راوی ہے (iv) حکم بن عتیبہ بن نحاس کوفی امام بخاری فرماتے ہیں حکم بن عتیبہ ایک ہی راوی ہیں مشہور امام ہیں جو حکم بن عتیبہ مجہول ہے وہ تو کوفہ کا قاضی تھا اُس نے تو کوئی حدیث روایت ہی نہیں کی۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں امام بخاری کا فیصلہ درست ہے (لسان المیزان ص ٣٣٦ج٢ ) یہ ثقہ ثبت اور فقیہ ہے ہاں بسا اوقات تدلیس کرتا ہے (تقریب ص ٢٣٢ ج١ )۔ (v) حنش بن معتمر ابو المعتمر کوفی صدوق ہے لہ اوھام (تقریب ص ٢٤٩) ارسال کرتا ہے لیکن یہاں تو وہ کہتا ہے کہ میںنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ دومینڈھے ذبح کر رہے تھے تو روایت میں صرف ایک راوی ابوالحسناء ہے جس سے روایت میں ضعف آیا ہے لیکن من گھڑت اور موضوع روایت نہیں ہے اس (مسئلہ کہ میت کی وصیت پوری کی جائے) میں تو اُوپر کی روایات اس کی مؤید ہیں لہٰذا ضعف قابلِ التفات نہیں۔ فقہ حنفی میں ہے کہ میت نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو بہر صورت اس کی طرف سے قربانی جائز ہے البتہ وصیت کی صورت میں اس کا گوشت نہیں کھا سکتا سب صدقہ کرے گا اور وصیت نہ کی ہوتو گوشت وغیرہ کا حکم اپنی قربانی جیسا ہے (عالمگیری ص١٧٩ ج ٤۔ ردا لمحتار ص ٢٢٩ج ٥۔ قاضی خان ج٤ ص٣٣٢)۔ نمبر٧ : اگر کسی نے وصیت نہ بھی کی ہو پھر بھی اگر کوئی میت کے ثواب کے لیے صدقہ کرے تو نبی کریم ۖ