ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
ص١٩٢) البتہ امام مالک زندہ کی طرف سے حج بدل کے قائل نہیں البتہ حج نفل باوجود کراہت جائز کہتے ہیں (کتاب الفقہ ص٧٠٦ ج ١ ) جبکہ میت کی طرف سے حج فرض ونفل سب کے نزدیک جائز ہے (کتاب الفقہ)۔ امام نووی فرماتے ہیں : ''ہمارے نزدیک میت کی طرف سے'' حج فرض ''کرنا صحیح ہے البتہ'' حج نفل'' تب صحیح ہے جب وصیت کر جائے (شرح مسلم ص ٣٢٤ ج١) اور امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک میت کی طرف سے حج فرض اور نذرجائز ہے چاہے وصیت کی ہو یا نہ (ایضاً ص٤١٣ ج١)۔ بہرصورت حج بدل کا زندہ اور میت کو ثواب ہوگا تب ہی تو اجازت ہوئی ورنہ فعل عبث ہوگا۔ نمبر ٥ : اگر کسی آدمی نے حج یا صدقہ وغیرہ کی نذر مانی اور پوری نہ کرسکا فوت ہوگیا تو اگر کسی وارث نے وہ نذر پوری کی تو نذر واجب پوری نہ کرنے کے جرم سے بری ہو جائے گا ۔نبی کریم ۖ نے نذرِ حج اور نذرِ روزہ اورصدقہ کی نذر پوری کرنے کا حکم فرمایا ہے (بخاری ص٢٥٠ ج ١۔ ابودائودص٤٦٩ ج٢ و ص٤٦٨۔ ترمذی ص٢٢٢ ج ١۔ مسلم ص٤٥ ج٢ ۔نسائی وغیرہ)۔ نذر پوری کرنے کو منور صاحب اور حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب بھی ما نتے ہیں مگر نذر پوری کرنے سے دوسرے کے فعل سے بری ہونے کا فائدہ انہیں کیوں سمجھ نہیں آتا؟ ظاہر ہے بری ہونے کا فائد ہ بھی ہوگا اورثواب بھی ملے گا تو یہ بھی دوسرے کے عمل سے ہوا۔ نمبر ٦ : اگر کسی میت نے صدقہ یا حج یا قربانی وغیرہ کی وصیت کی تھی تو ثلث مال سے وصیت پوری ہو سکے تو ورثاء کو پوری کرنا واجب ہوگی اگر اِس سے زائد مال کی ضرورت ہوتو پوری کرنا واجب نہیں مستحسن ہے اور بہر صورت میت کو یقینا اِس کا ثواب ملے گا ۔نبی کریم ۖ نے وصیت پوری کرنے کا حکم فرمایا ہے فرمایا : '' اگر (میت) مسلمان ہو اور تم اس کی طرف سے (وصیت کے مطابق) غلام آزاد کرو یا صدقہ کرو یاحج کرو تو اُس تک ثواب پہنچے گا '' (ابو دائود ص٣٩٩ ج ٢۔ مسند احمد ص ١٨٢ ج ٢ ۔مشکٰوة ص ٢٦٦ ج ١۔ شرح الصدور بحوالہ ابوالشیخ وابن حبان) نبی کریم ۖ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ ۖ کی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔(ابودائود ص ٣٨٥ ج ٢۔ ترمذی ص٢١٦ ج١۔ مسند احمد ص ١٠٧ و ١٥٠ ج١ ) اس حدیث پر حبیب الرحمن صاحب نے کافی جرح کی ہے کہ اس میں کوفی شیعہ راوی ہیں اس حدیث کی سند میں واقعی کوفیین ہیں لیکن اس وجہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں رہتے تھے تو ان کو یہ عمل کرتے ہوئے کوفہ والے ہی دیکھ سکتے تھے مختصراً سند پر بحث پیشِ خدمت ہے : (i) عثمان بن ابی شیبہ واسود بن عامر و ابوبکر بن ابی شیبہ ومحمد بن عبید المحاربی الکوفی یہ حضرات شریک قاضی سے روایت کرنے والے ہیں ۔یہ سب حضرات ثقہ اور صدوق ہیں( تقریب التہذیب)۔ (ii) شریک بن عبداللہ النخعی الکوفی ابوعبداللہ الحافظ الصادق احدالائمہ ہے امام یحییٰ بن معین سے روایت ہے کہ