ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
وتجارت و طبابت کے) اصلی مقصود فلاح د نیوی بنایا گیاہے گوبواسطہ معین دین بھی ہو، اور اسبابِ شرعیہ کا (مثل صوم و صلٰوة وحج کے) مقصود بالذات فلاح دینی ٹھہرایا گیا گوبالعرض نافع دنیا بھی ہو۔ مگر صرف دُعا ایک ایسی چیز ہے کہ فلاح دین و دنیا دونوں کے لیے بالمساوات ایک مرتبہ میں مشروع و موضوع ہے جس سے بوجہ اس جامعیت کے اس کی وقعت و عظمت ظاہر ہے ۔اس لیے قرآن وحدیث میں نہایت درجہ اس کی ترغیب و فضیلت و تاکید جا بجا وارد ہے ۔حضور علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا جس شخص کو دُعاء کی توفیق ہوگئی اُس کے لیے قبولیت کے دروازے کھل گئے ،ایک روایت میں ہے جنت کے دروازے کھل گئے اور ارشاد فرمایا کہ قضا کو صرف دعا ہٹا دیتی ہے ،احتیاط اور تدبیر سے نہیں ٹلتی اور دُعا نازل شدہ بلا کے لیے بھی نافع ہے اوراُس بلا کے لیے بھی جو ابھی نازل نہیںہوئی اور کبھی بَلانازل ہوتی ہے اور اِدھر سے دُعا پہنچ کر اُس سے ملتی ہے اور دونوں میںقیامت تک کشتی ہوتی رہتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ قبل مصیبت بھی دعاکرتا رہے۔ اس کی برکت سے مصیبت نہیں آتی اور کبھی اس کی وجہ سے مصیبت ٹل جاتی ہے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز قدرو منزلت کی نہیں اور جس کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں کے وقت اس کی دعا قبول فرمالیا کریں، اُس کوچاہیے کہ خوشی اورعیش کے وقت کثرت سے دعا مانگا کرے اور ارشاد فرمایا کہ دعا مسلمان کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون ہے اور آسمان کا نور ہے ۔ دُعا میں خاصیت ہے کہ اس سے تدبیر ضعیف بھی قوی ہو جاتی ہے۔ دعا کرنے سے بندہ کو حق تعالیٰ سے خاص تعلق ہوتا ہے جس وقت آدمی دعا کرتا ہے اُس وقت غور کرکے ہر شخص دیکھ لے کہ اس کو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق محسوس ہوگا ۔بغیر اس کے خاص تعلق نہیں ہوتا۔ دُعامیں ایک نفع یہ ہے کہ یہ حق تعالیٰ کے یہاں معذور سمجھا جائے گا کیونکہ جب اس سے سوال ہوگا کہ تم نے حق کا اتباع کیوں نہیں کیاتو یہ کہہ دے گا کہ میں نے طلب ِحق کے لیے بہت سعی کی اور آپ سے بھی عرض کردیا کہ مجھ پر حق واضح ہوجائے ،بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وعنایت سے نیک بندوں کی عاجزی اور دعا و زاری پر نظر فرماکر محض اپنی قدرت سے تھوڑے سے ناتمام اسباب سے یابلا اسباب بھی اثر مرتب فرمادیتے ہیں۔ (شریعت وطریقت ص١٤٨، ١٤٩) گر گریزی با اُمید راحتے ہم ازاں جا پیشت آید آفتے ہیچ کنجے بے دود بے دام نیست جز بخلوت گاہ حق آرام نیست (قرآن وتصوف ص٤٠) (جاری ہے)