ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
واذا مس الانسان الضردعانا لجنبہ او قاعدًا اوقائماً فلمّا کشفنا عنہُ ضرّہ مرّکان لّم یدعنا الیٰ ضرٍّ مسّہ۔ ( سورة یونس ۔ آیت ١٢) اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کروٹ پر یا بیٹھے یا کھڑے (ہر حال میں ) ہم کو پکارے چلا جاتا ہے ۔پھر جب ہم اُس کی تکلیف کود ور کردیتے ہیں تو ایسا (بے پرواہ بن کر )چل دیتا ہے گویا اس تکلیف کے دور کرنے کے لیے) جو اُس کو پہنچ رہی تھی ہم کو (کبھی ) اُس نے پکاراہی نہ تھا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : ھوالذی یسیّرکم فی البر والبحر حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم بریح طیبة وفرحوا بھا جاء تھا ریح عاصف وجاء ھم الموج من کل مکان وظنوا انھم احیط بھم دعوا اللّٰہ مخلصین لہ الدین ۔ لئن انجیتنا من ھٰذہ لنکوننّ من الشاکرین ۔ فلمّا انجاھم اذا ھم یبغون فی الارض بغیرالحق۔ (سورۂ یونس ۔آیت ٢٢) '' وہی خدا ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے (سفر کی سہولتیں مہیا کرتا ہے ) یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو خوشگوار ہواکی مدد سے لے کر چلتی ہیں اور لوگ اُن کی رفتار سے خوش ہوتے ہیں کہ (نا گا ہ ) کشتی کو تیز تند ہواکا جھونگا آلگتا ہے اورپانی کی لہریں ہر طرف سے چڑھ آتی ہیں اور وہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ اب تو (بُری طرح) گھیرے میں آپھنسے ہیں تو ایسے موقع پر خلوص ِ دل سے خدا ہی کی بندگی کا اظہار کرتے ہوئے اُس سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں( کہ اے پروردگار) اگر تو ہم کو اس سے نجات دے تو ہم ضرور ہی تیرے شکر گزار ہوں گے لیکن جب وہ اُن کو اِس بلا سے نجات دے دیتا ہے تو وہ خشکی پر پہنچتے ہی ناحق طورپر سرکشی کرنے لگتے ہیں۔'' بہرحال دُعا بیچارگی اور درماندگی کی حالتِ اضطرار میں لطف ورحم کی وہ پکار ہے جو اطمینان ِقلب کا سب سے بڑا وسیلہ ہے ۔انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے جب کوئی پریشانی لا حق ہوتی ہے جب کوئی خطرہ خوفناک شکل میں اس کی طرف پیش قدمی کرتا ہے یا جب کسی اُمید کے چراغ کی لو مدھم ہونے لگتی ہے تو وہ بے اختیار اس پاک ذات کی طرف لوٹتا ہے جو ارض و سمٰوات کی خالق اور کائنات کی مدبّر ہے جس کے قبضہ قدرت میں یہاں کے ہر وجود کی تقدیر ہے۔ اذا مسکم الضر فالیہ تجرٔ ون ۔ ( النحل ۔آیت ٥٣ ) جب تم کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے آگے روتے اور گڑ گڑاتے ہو