ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
جناب اقبال حسن خان کے سامنے پھر بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی معلومات آنے سے رہ گئیں یا اُن پر غور کرنے کا موقع نہیںملا مثلاً ان کا یہ فرمانا کہ جناب حاجی محمدعابد صاحب کے ذہن میںایسا بڑا مدرسہ نہ تھا درست نہیں معلوم ہوتا کیونکہ چھوٹے مکتب تو دیوبند میںموجود تھے جن کا ذکر تاریخ دیوبند میں ہے اور مولانا مہتاب علی صاحب کا بھی مکتب تھا (جنہیں دارالعلوم کی شورٰی میں لیا گیا ہے ) اگر ایسا ہی مکتب بنانا ہوتا تو وہ تو جناب حاجی محمد عابد صاحب تنہا ہی بنا سکتے اور چلا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ حضرت سیّدنا و مولانا نانوتوی کو بلایا۔ ٭ حضرت حاجی صاحب مولانا ولایت علی قدس سرہ سے بیعت تھے اور ان سے خلافت حاصل تھی اور ان کو حضرت سیّدنا احمد شہید رحمة اللہ علیہ سے (ملاحظہ ہو نقشہ سلاسل درملفوظات انوری ) وہ بھی حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی تحریک سے واقف تھے۔ ٭ وہ حضرت نانوتوی قدس سرہ سے، اُن کے مجاہدانہ کارناموں سے، اُن کے علمی بلند پایہ سے بھی خوب واقف تھے۔ ان کے ساتھ گہرے تعلقات تھے اور اس علاقہ کے سرگروہان اولیاء و علماء و صلحا ء (یعنی حضرت مولانا محمد قاسم، حضرت مولانا محمد یعقوب ،حضرت مولانا مظفر حسین صاحب وغیرہ قدس اللہ اسراہم و نور مرا قدھم ) کے ساتھ ١٢٧٨ھ میں یعنی ١٨٥٧ء سے صرف چھ سال بعد سفر حج کرچکے تھے ( اس سفر کا حال بیاض یعقوبی میں مولانا محمد یعقوب صاحب نے خود بھی تحریر فرمایا ہے وہ ایسے ہی جلیل القدر علما پر مشتمل ایک درس گاہ بنانے کے خواہش مند تھے چھوٹی موٹی درس گاہ کے نہیں۔ یہ بلا شبہہ ایسے علماء تھے کہ ایک ایک عالم ایک ایک یونیورسٹی پر بھاری تھا بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جنہوں نے حضرت کو دیکھا ہی نہیں یعنی ہم تو حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے علم وفضل کے معترف ہوں اور حضرت حاجی صاحب جنہوںنے دیکھا تھا اور جن کے نظرِ انتخاب نے انہیں ہی پسند کیاتھا اور ان کی جلالت ِشان سے واقف نہ ہوں تو حاجی صاحب کے ذہن مبارک میں بقدر قامت حضرت نانوتوی بڑامدرسہ تھا چھوٹا نہیں۔ ٭ حضرت مولانا ذوالفقار علی رحمة اللہ علیہ نے مختصراً اور صاحبِ تذکرة العابدین نے مفصل طورپر یہ ذکر کیا ہے کہ حاجی صاحب کو درسگاہ بنانے کا الہام ہوا کہ علمِ دین نہ اُٹھنے پائے ظاہر ہے چھوٹے مدرسہ یا مکتب سے یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ یہ اسی طرز کی درس گاہ سے پورا ہو سکتا تھا جس سے فقہا و محدثین کے گروہ پیدا ہوں۔ ٭ حضرت اقدس الحاج محمد عابد صاحب تو حضرت نانوتوی قدس سرہ کی صف کے تھے۔باقی حضرت اقدس نانوتوی قدس سرہ دیوبند کے عوام تک سے کتنے خوش ہوئے اس کا اندازہ حضرت کی تقریر سے لگائیے جو مبالغہ سے خالی اور خوش بیانی میں سحر ہے۔ یہ روئداد ١٢٩٠ھ /١٨٧٢ء ص٢ کے حوالہ سے تاریخ دیوبند میں نقل کی گئی ہے جو آپ پڑھ چکے ہیں۔ ٭ مدرسہ تو شاید حضرت نانوتوی قدس سرہ کے اندازہ سے بھی زیادہ بڑا ہوگیا ہے ۔حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ