ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
کھدوانی شروع کردی چونکہ اس وقت روپیہ نہیں تھا تو اکثر بڑے بڑے ہوشیار کہنے لگے کہ حاجی صاحب گڑھے کھدواکر ڈلوادیں گے مگر بمدد ِخداوند ِکریم چند روز میں وہ بنیادیں بھی بھر گئیں اُس وقت سب کو خیال ہوا کہ جامع مسجد بن جاوے گی ۔مولوی عبدالخالق صاحب نے بھی حاجی صاحب سے کہا کہ اگر میرا کچھ مقرر کردو تو میں مسجد ہٰذا کا ساعی ہوں اور باہر جا کر چندہ جمع کروں۔ حاجی صاحب نے کچھ مقرر کردیا چنانچہ مولوی صاحب باہر گئے اور کئی سال تک مسجد کی تعمیر اِن کی سعی سے جاری رہی اور مسجد تیا ر ہوگئی جو اب بفضلہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تعمیر ہوگی ۔'' (تذکرة العابدین ص ٧٢۔٧٣) تاریخ دارالعلوم میں تحریر ہے : ''دارالعلوم ابتداء چھتہ کی مسجد میں قائم ہوا تھا ۔یہ ایک مختصر سی قدیم مسجد ہے جب طلبہ کی کثرت ہوئی تو دارالعلوم کو ایک دوسری قریبی مسجد میں منتقل کیا گیا جو'' قاضی مسجد'' کہلاتی ہے یہ مسجد کسی قدر کشادہ تھی مگر کچھ دنوں بعد جب یہ بھی ناکافی ثابت ہوئی تو قاضی مسجد کے قریب ایک مکان کرایہ پر لے لیا گیا۔ اس موقع پر اکابر دارالعلوم نے یہ محسوس کیا کہ اب دارالعلوم کے لیے ایک وسیع اور کشادہ عمارت کی ضرورت ہے ۔اس زمانے میں دیوبند کی جامع مسجد زیرِ تعمیر تھی اس لیے یہ طے پایا کہ جامع مسجد میں اس مقصد سے حجرے اور دالان بنائے جائیں چنانچہ اِس کا اعلان کردیا گیا اور چندے کی اپیل کی گئی اور جب ١٢٩٠ھ / ١٨٧٣ ء میں جامع مسجد تیار ہو گئی تو دارالعلوم کو اس میں منتقل کردیا گیا۔ دارالعلوم کے اہتمام کے علاوہ جامع مسجد کی تعمیر کا کام بھی حاجی سیّد محمد عابد کی نگرانی میں ہورہا تھا دونوں کام کافی وقت چاہتے تھے اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ حاجی صاحب کے کاموں کے بار کو ہلکا کیا جائے لہٰذا دارالعلوم کا اہتمام پھر مولانا رفیع الدین کے سپرد کردیا گیا جوحج سے واپس تشریف لا چکے تھے البتہ اہم اُمور کی نگرانی حاجی صاحب سے متعلق رکھی گئی۔'' (تاریخ دارالعلوم ص ١٦٦ ج ١ ) جامع مسجد کی تعمیر ١٢٨٣ھ میں شروع ہوئی اور ١٢٨٦ھ میں مکمل ہوگئی تھی ۔ تاریخ دیوبند میں تحریر ہے : ''حاجی صاحب نے موسس و مہتمم تعمیر کی حیثیت سے مسجد کے شمالی دروازے پر مسجد کے انتظام