ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
سے متعلق ایک دستور العمل سنگِ سرخ پر کندہ کراکر نصب کرادیا ہے چنانچہ اسی کے مطابق نظم ونسق قائم ہے ''۔ (تاریخ دیوبند ص ٢٩٨) مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں اسی زمانہ میں ایک بزرگ سیّد جمعیت علی دیو بندی نے ایک طویل مثنوی چھ ہزار تین سو اشعار پر مشتمل لکھی تھی ۔حاجی صاحب کی نسبت اسی مثنوی میں ایک شعر ہے پیر جی عاشق علی کے نورِ عین بانی ٔ مسجد ہوئے عابد حسین (ملخصاً ازتاریخ دیوبند ص ٣٠٠) مولانا سیّد محبوب صاحب رضوی لکھتے ہیں : ''حاجی صاحب کو عابد حسین اور محمد عابد دونوں ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن خودحاجی صاحب کی جتنی تحریریں راقم سطور کی نظر سے گزری ہیں اُن میں خود اُن کے قلم سے محمد عابد تحریر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اولاً اِن کا نام عابد حسین تھا مگر بعدمیں غالباًخود انہوں نے اِسے محمد عابد سے بدل لیا جیسا کہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا نام شروع میں امداد حسین تھا مگر بعد میں امداد اللہ کرلیا کچھ یہی صورت یہاں بھی ہوئی ہے''۔ (تاریخ دارالعلوم ج٢ ص٢٢٥حاشیہ ٢ ) اب دیوبند میں متعدد مساجد میں نمازِ جمعہ ہوتی ہے مگر جامع مسجد یہی کہلاتی ہے اور یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔جب دارالعلوم جامع مسجد میں منتقل ہواتو ١٢٩٠ھ کا جلسہ تقسیم انعام وہیں منعقد ہوا۔ تاریخ دارالعلوم میں تحریر ہے : ''١٢٩٠ھ میں پانچ طلبہ نے سند فراغت حاصل کی فارغین کی اس جماعت میں حضرت شیخ الہند بھی شامل تھے۔ ١٩ ذی قعدہ ١٢٩٠ھ یوم جمعہ کو جامع مسجد میں( جہاں دارالعلوم منتقل ہوگیا تھا ) جلسہ عطائے سند وتقسیم انعا م منعقد ہوا۔بعد نماز ِجمعہ حضرت نانوتوی نے ایک معرکة الآراء تقریر فرمائی جس کے اقتباسات درج کئے گئے ہیں ''۔( ملخصاً ص ١٦٩ ج ١ ) ''چند خیر خواہان بے غرض نے بنام خدا اِس قصبہ دیوبند میں مدرسہ کی طرح ڈالی اور تمام بنی آدم اور خصوصاً اہلِ اسلام کی بہبودی کی صورت نکالی ۔سوبحمداللہ اپنے خیال سے بڑھ کر اس نے رونق پائی اور یہاں کی دیکھا بھالی جابجا مدرسے مقرر ہوئے۔ اور اس آخری زمانہ میں علم کا پھر اس طرح چرچا ہوا جیسا گل ہوتے ہوئے چراغ سنبھالا لیا کرتا ہے اور بحمداللہ سینکڑوں آدمی اس دولت عظمیٰ سے اس مدرسہ میں آکر مستفید ہوئے اور تھوڑا بہت اپنی لیاقت کے موافق حصہ لے اُڑے مگر سب دُور