ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2004 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( نماز کو توڑنے والی چیزوں کا بیان ) ١۔ نماز میں بولنا یا بِلا ضرورت آواز نکالنا : مسئلہ : نماز میں قصداً یا بھولے سے یا خطا سے بول اُٹھا تو نماز ٹوٹ جائے گی ۔ بولنے سے مراد یہ ہے کہ کہا ہوالفظ کم از کم دو حرف پر مشتمل ہو ۔ اور ایک حرف پر مشتمل ہو تو وہ ایسا ہو جو بامعنی ہو جیسے عربی زبان میں مثلاً ع اورق کہ ''ع'' کامطلب ہے'' تو حفاظت کر'' اور ''ق ''کا مطلب ہے '' توبچا''۔ مسئلہ : کسی شخص کو سلام کرنے کے قصد سے سلام یا تسلیم یا السلام علیکم یا اس جیسا کوئی لفظ کہنا اور اسی طرح کسی کے سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا ،اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ مسئلہ : اگر درد یامصیبت سے نماز میں آہ یا اوہ یا اُف یا ہائے کہے یا زور سے روئے تو نماز جاتی رہتی ہے ۔البتہ اگر مریض مرض سے بے قابو ہوجائے اور اُس سے بے اختیار آہ یا ہائے نکل جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی۔ اسی طرح اگر جنت یا دوزخ کو یاد کرنے سے دل بھر آیا اور زور سے آواز یا آہ یا اُف وغیرہ نکل جائے تو نماز نہیں ٹوٹی۔ مسئلہ : بے ضرورت کھنکھارنے اور گلا صاف کرنے سے جس سے دو حرف بھی پیدا ہو جائیں نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ البتہ لاچاری اور مجبوری کے وقت کھنکھارنا درست ہے اور نماز نہیںجاتی۔ مسئلہ : نماز میں چھینک آئی اور اس پر الحمد للّٰہ کہا تو نماز نہیں جاتی لیکن کہنا نہ چاہیے اور اگر کسی اور کو چھینک آئی اور اس نے جواب میں اس کو یرحمک اللّٰہ کہا تو نماز جاتی رہی۔ مسئلہ : نماز میں کچھ خوشخبری سنی اُس پر الحمد للّٰہ کہہ دیا یا کسی کی موت کی خبر سنی اُس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو نماز جاتی رہی۔ مسئلہ : کوئی لڑکا وغیرہ گر پڑا اُس کے گرتے وقت بسم اللّٰہ کہہ دیا تو نماز جاتی رہی۔ مسئلہ : اگر نمازی نے وسوسہ کے دُور ہونے کے لیے لاحول ولا قوة الا باللّٰہ العلی العظیم پڑھی تو اگر وہ وسوسہ دُنیاوی اُمور سے متعلق ہو تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر اُمورِ آخرت سے متعلق ہے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔