ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2004 |
اكستان |
|
خصیص المورد لا یقتضی تخصیص النص وھوعام (ترجمہ) سبب نزول ومورد کے خاص ہونے سے نص کی تخصیص نہیں ہوگی بلکہ نص عام ہے ۔اسی طرح لااکراہ کی آیت منسوخ بھی نہیں جیسے بعض کا خیال ہے کہ یہ اُقتلوا المشرکینکا فة سے منسوخ ہے ۔ صاحب مظہری کہتے ہیں نسخ کے لیے تعارض ضروری ہے او ریہاں تعارض نہیں ، کیونکہ قتال ، دین پر جبر کے لیے نہیں بلکہ رفع فساد کے لیے ہے۔ مقصد ِجہاد دین پرجبر نہیں رفع فساد ہے : جہاد کا مقصد خود قرآن نے بیان کیا الا تفعلوہ تکن فتنة فی الارض و فساد کبیر (ترجمہ) اگر تم جہاد نہ کروگے تو خدا کی زمین پر بڑے فتنے اور فساد برپا ہوں گے ،یعنی جہاد کا مقصد فتنے اور فساد کو مٹانا ہے۔ لہٰذا مستشرقین کا خود جہاد کو فساد کہنا کس قدر غلط ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کفار کے جن افراد سے فتنے اور فساد کا قوی اندیشہ نہ ہو، عین جنگ میں بھی اسلام نے اُن کے قتل سے منع فرمایاہے ۔ مثلاً نابالغ بچے ،عورتیں، مشائخ یعنی بوڑھے اور رہبان یعنی عبادت گذار درویش، اندھے ، لنگڑے (مظہری ج١ ص٣٣٦)۔یہ تحقیقی جواب ہے کہ مذہب اسلام خود دین میں جبر کے خلاف ہے اور جہاد فساد نہیں بلکہ فساد کش عمل ہے ۔ جیسے ایک مملکت کے باغی افراد بھی قتل وخونریزی کرتے ہیں اور قانونِ عدل کی خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن قانون عدل کی محافظ فوج جو اِن باغیوں سے لڑتی ہے اُس کی شکل بھی قتل کی ہے لیکن باغیوں کا قتل فساد اور وحشیانہ عمل ہے اورقانون عدل کی محافظ فوج کا قتل ایک مقدس فعل ہے جو رفعِ فساد، اقامتِ عدل اور رفعِ ظلم کے لیے ہے۔ قرآن نے صاف صاف اعلان کیا کہ دین میں جبر نہیں اورسنت نبوی میں بھی یہ حکم دیا گیا ہے، جیسے ذکر ہوا اِس کے علاوہ قرآن نے مستشرقین کی غلط الزام تراشی کی تردید کے لیے بار بار اِس کا اعلان کیا کہ شبہہ نہ رہے۔ سورۂ کہف میں فرمایا قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر کہہ دے کہ یہ حق ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے تو جوچاہے قبول کرے اور جو چاہے انکار کرے۔ سورۂ یونس میں فرمایا ولو شاء ربک لاٰمن من فی الارض کلہم جمیعاً افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین (ترجمہ) اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو زبردستی مومن بنادے تو زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے ۔اے پیغمبر! کیا تو لوگوں پر اس لیے زبردستی کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں۔سورۂ توبہ میں قرآن کا ارشاد ہے وان احد من المشرکین استجارک فأجرہ حتی یسمع کلام اللّٰہ ثم ابلغہ مأمنہ ذالک بانھم قوم لایعلمون اگر لڑائی میں کوئی مشرک تجھ سے پناہ کا طالب ہوتو اُس کو پناہ دے، یہاں تک کہ کلام اللہ سن لے پھر اُس کو وہاں اُس جگہ پہنچادے جہاں وہ بے خوف ہو۔ یہ اس لیے کہ یہ بے علم لوگ ہیں۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ'' اسلام یا تلوار'' تاکہ جو کلام الٰہی اُس نے سنا ہے اُس پر غور کرکے صحیح رائے قائم کرے۔ اس سے یہ