ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2004 |
اكستان |
|
ایک دوسری روایت میں ہے کہ پیغمبر علیہ السلام کے ہاتھ پھیرتے ہی اُس تنے نے رونا بند کردیا پھر آپ نے فرمایا کہ اگر میںاس پر دست شفقت نہ پھیرتا تو یہ قیامت تک روتارہتا ۔اورایک روایت میں ہے کہ جب کھجور کے تنے نے رونا شروع کیا تو اس کی بے قراری کو سن کر سننے والے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پربھی گریہ وبکا کا عالم طاری ہوگیا ۔ امام شافعی رحمةاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کھجور کے تنے کا پیغمبر علیہ السلام کی جدائی پررونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مُردوں کو زندہ کرنے سے بھی بڑا معجزہ ہے (الخصائص الکبرٰی ٢/١٢٨)۔ جس جگہ یہ تنا تھا اسی جگہ کو مسجد نبوی (علی صاحبہاالصلٰوة والسلام) کے حصۂ ریاض الجنة میں'' اُسطوانۂ حنانہ '' کہا جاتا ہے۔ (٨) اُنگلیوں سے پانی نکلنا : متعدد مرتبہ آپ کی حیات طیبہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ پانی کی قلت ہوگئی اوروضو وغیرہ کے لیے پانی کی شدید ضرورت تھی تو آپ ۖ نے معمولی سے پانی میں اپنی مبارک اُنگلیاں رکھ دیں جن سے پانی کا ایسا چشمہ جاری ہوا کہ سینکڑوں افراد اس سے مستفیض ہو گئے ۔ بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ارشاد فرماتے ہیں : لقد رأ یتنی مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم وقد حضرت صلاة العصر ولیس معناماء غیر فضلة فجعل فی اناء فأتی بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فادخل یدہ فیہ و فرج اصابعہ وقال حی ھلا علی الوضوء والبر اکة من اللّٰہ فلقد رأیت الماء یتفجر بین اصابعہ فتوضأ الناس وشربوا وکنا الفا وأربع مائة ۔ (بخاری شریف ٢/٧٤٢ ، الخصائص الکبرٰی ٢/٦٧ ) میں پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام کے ساتھ تھا نماز عصر کا وقت ہوگیا اور ہمارے پاس معمولی سے بچے ہوئے پانی کے سوا کچھ پانی نہ تھاچنانچہ وہ پانی ایک برتن میں کرکے پیغمبر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں لایا گیا آپ ۖ نے اسمیں اپنا ہاتھ ڈال کر اُنگلیاں کھول لیں اور فرمایا آجائو !وضو کے پانی اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ برکت کی طرف۔حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے یہ دیکھا کہ پانی آپ ۖ کی مبارک اُنگلیوں کے درمیان سے اُبل رہا ہے چنانچہ لوگوں نے وضو کیا اور پانی پیا اور ہماری تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔