ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2004 |
اكستان |
|
اُسی وقت آپ نے اُسے قتل کیوں نہ کیا : لیکن جب آجائے کوئی آدمی اور مہمان ہوجائے تو اُسے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔یہ پہلے سے سلطنتوں کے آداب کے بھی خلاف ہے اور اگر ایسے کیا جاتا کہ اُسے مار دیا جائے یا کچھ کیا جائے تو پھر یہ اعلانِ جنگ ہوتاتھا اور پھر بغیر جنگ کیے کام نہیں بنتا تھا تو رسول اللہ ۖ نے اُس کو جواب دیا کہ زمین جو ہے وہ خدا کی ہے وہ بانٹنا میرا کام ہی نہیں ہے یہ الگ کام ہے میرا کام جو ہے سمجھانا ہے آئین دینا ہے دستور دینا ہے اعمال دینے ہیں، امر بالمعروف نہی عن المنکر، عقائد کی صحت ، آداب یہ میں دیتا ہوں تو زمین بانٹنی اور سودے بازی یہ نہیں اگر تو سودے بازی کے طورپر مجھ سے یہ جو اتنا سا لکڑی کا ٹکڑا ہے میرے ہاتھ میں یہ بھی مانگے گا تو یہ بھی میں نہیں دُوں گا کیونکہ سودے بازی سرے سے ہمارا کام ہے ہی نہیں ۔ حضرت ثابت بن قیس پر اعتماد : وہٰذا ثابت یُجیبُکَ عَنِّی یہ ثابت بن قیس ہیں یہ میری طرف سے تمہیں جواب دیں گے۔ رسول اللہ ۖ نے اُس کویہ فرمایا پھر اُٹھ کر تشریف لے گئے ۔پھر وہ لوگ چلے آئے ہوں گے بات چیت ہوئی ہوگی جواب دیا ہوگا۔ میں عرض یہ کررہا تھا کہ اِن کی فضیلت یہ ہے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے اِن کو اپنی طرف سے نائب مقررفرمایا کہ یہ میری طرف سے جواب دیں گے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بہت بڑے قابل اعتبار اور دینی اعتبار سے پوری سمجھ رکھنے والے شخص تھے اب اِن کا قصہ آتا ہے یہاں جو میں نے حدیث شریف شروع کی تھی کہ یہ خطیب ِانصار تھے ۔اب آیت یہ اُتری تہذیب سکھانے کے لیے لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی رسول اللہ ۖ کی آواز سے زیادہ آواز نہ اُٹھائو۔ ولا تجہروا لہ بالقول کجہر بعضکم لبعض جیسے ایک دوسرے سے بات کر لیتے ہیں زور زور سے یا ایک دوسرے کی بات کاٹ کر زور سے اپنی بات کہنے کی کوشش کرتا ہے آدمی تو اُس میں دوسرے سے زیادہ اپنی آواز اُونچی کرتا ہے کہ میں سُنادوں اپنی بات ۔جلدی میں کرتاہے ایسے سبقت کرنی چاہتا ہے ضرورت سمجھتا ہے یا اپنی بات کو اہم سمجھتا ہے ایسے موقعوں پر ہر وقت یہ ہوتا ہے لوگوں میں ،تو فرمایا جیسے ایک دوسرے کے سامنے جہر کرتے ہو ایسے نہ کرو ۔اور پھر اس کا دینی اعتبار سے یہ نقصان تھا کہ جناب رسول اللہ ۖ جن پر ایمان ہے اگر اُن کے بارے میں ذرا سی بھی توہین ہوجائے تو بس کفر ہے اور توہین بھی نظر نہیں آئے گی محسوس نہیں ہوگی کیونکہ بے اختیاطی کا عادی ہے او ر خدا کے ہاں وہ شمار ہو جائے گی، اگر وہ خدا کے ہاں شمار ہوگئی تو جو عمل کیے ہیں ایمان ہے اسلام ہے سب ختم ہوجائیں گے ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون تمھیں خبر بھی نہ ہوگی اور حبطِ عمل ہو جائے عمل ضائع ہوجائیں یہ آیت اُتری۔