ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2004 |
اكستان |
|
رسول اللہ ۖ پر اورمومنین پر ۔ رسول اللہ ۖ پر تو رہتا ہی تھا، اُس وقت مزید ہوا ہوگا۔ رسولِ خدا پیچھے نہیں ہٹے : اور رسول اللہ ۖ تو پیچھے نہیں ہٹے ،صحابہ کرام سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ پیچھے ہٹ گئے تھے ، تو اپنا جواب دینے سے پہلے انھوں نے جواب ہی یہاں سے شروع کیا کہ رسول اللہ ۖ پیچھے نہیں ہٹے ہم تو ہٹے تھے آپ پیچھے نہیں ہٹے تھے ۔ اگرتم یہ کہتے ہو کہ تم لوگ پیچھے ہٹ گئے تھے تو ''تم لوگوں سے'' شبہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ۖ بھی پیچھے ہٹے تھے تو انھوں نے بجائے اِس کے کہ جواب دیتے کہ ہاں ہم پیچھے ہٹے تھے انہوں نے پہلے یہ کہا کہ رسول اللہ ۖ پیچھے نہیں ہٹے تھے بلکہ سواری پر سوار تھے تو ایسے ہو سکتا تھا کہ سواری پیچھے ہٹے جانور پیچھے ہٹ جائے خود، یہ تو ہو سکتا ہے ۔ بہادری کی انتہاء ،سواری سے اُتر گئے : تو اِس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے نیچے اُتر کر کھڑے ہوگئے تاکہ پیچھے ہٹنا بالکل نہ ہو سکے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں آواز دی ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی آتا ہے کہ انھوں نے آواز دی وہ ''جہیر الصوت '' ١ تھے تو پھر انصار اور مہاجرین یہ سب کے سب فوراً جمع ہو گئے بالکل دیر نہیں لگی ۔تشبیہ دیتے ہیں ایسے جیسے گائے اپنے بچے کے بولنے پر دوڑ کر آتی ہے ایسے یہ سب مسلمان جمع ہوگئے پھر مقابلہ ہوا اورشکست ہوگئی اُن کفار کو اور زبردست شکست ہوئی ۔ کوئی چیز وہ نہیںلے سکے ،سب چیزیں چھوڑ کر بھاگ گئے بال بچے بھی یہ بھی وہ بھی عورتیں بھی سب چھوڑ کر بھاگ گئے تو''جہیر الصوت'' لوگ جو تھے وہ کام آتے تھے اعلان کرنے میں بھی اور لڑائیوں میں بھی۔ حضرت ثابت باکمال خطیب تھے : اب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جوتھے یہ انصار کے خطیب تھے توخطیب کے لیے بہت سی چیزیں ضروری ہیں۔ آواز بڑی بھی ہو اور خوبصورت بھی ہو، اُس میں بلاغت ہو، فصیح اللسان بھی ہو ۔بلاغت کے معنی یہ ہیں کہ جیسی گفتگو کی ضرورت ہے وہ گفتگو کی جائے اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کرے موقع کے مناسب بات کرے تو اُس کا نام ''بلاغت'' ہے اور اگر اُس کے الفاظ بھی خوبصورت ہوں تو اُس کا نام ''فصاحت '' ہے تو فصیح بھی ہو بلیغ بھی ہو اور یہ سمجھداری کے بغیر نہیں ہو سکتا تاکہ وہ موقع کے مناسب جملے لائے تو رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کو خطابت ہی کے لیے استعمال فرمایا ہے جگہ جگہ ۔ ١ بلند آواز والے