ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2004 |
اكستان |
|
معلوم ہوا کہ خدائے قرآن کا منشاء یہ ہے کہ ایمان کا محرک تلوار نہ ہو بلکہ پرامن حالت میں غورخوض ہو۔ ایسی بہت سی باتیں ہیں لیکن منصف کے لیے اتنا بھی کافی ہے۔ اس ضروری اسلحہ بندی سے مستشرقین نے جبری تبلیغ کا پہلو نکالا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان واضح تصریحات کے باوجود مستشرقین کو یہ غلط فہمی کہاں سے پیدا ہوئی کہ انہوں نے یہ الزام لگایاکہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلایا گیا ہے۔ اس کا جواب تو یہ ہے کہ اکثر مستشرقین نے قصداً و دیدہ دانستہ سیاسی مقصد براری کے لیے ایسا کیا اور کچھ نے صاف اقرار کیا کہ اسلام صرف تبلیغ سے پھیلا ہے نہ جبرسے، اور جبر کا ایک واقعہ بھی خیرالقرون میں نہیں مل سکتا۔ جیسے اس مقصد کے لیے مسٹر آرنلڈ نے ''دی پریچنگ آف اسلام '' کتاب لکھی ہے اور یہ دعوٰی اُس نے پوری کتاب میں ثابت کیا کہ اسلام جہاں جہاں پھیلا تبلیغ کے اثر سے پھیلا، لیکن ایک گروہ غلط فہمی کا شکار ہوا جس کے اسبابِ غلطی حسبِ ذیل اُمور ہیں : (١) دورِ اوّل میں عرب میں تبلیغی جماعتیں جہاں جاتی تھیں مسلح ہوکر جاتی تھیں ۔ اس مسلح جانے سے اُن خودغرض مستشرقین نے یہ سمجھا کہ یہ مسلح مبلغین تلوار کے زور سے تبلیغ اسلام کر رہے ہیں حالانکہ ایسا قطعاً نہ تھا ۔ بلکہ ایسے واقعات عرب کے ملک میں اس لیے پیش آئے کہ وہاں کوئی منظم حکومت نہ تھی۔ مختلف قبائل ِعرب نے اپنے اپنے سرداروں کی قیادت میں الگ الگ ریاستیں قائم کر رکھی تھیں۔ لوٹ کھسوٹ ان کا ذریعہ معاش تھا۔ راستے میں بھی ڈاکوئوں کا خطرہ رہتا تھا۔ اس کے علاوہ مبلغین حضرات مختلف قبائل کے افراد ہوتے تھے وہ جن قبائل سے گزرتے تھے یہ احتمال ہو سکتا تھا کہ مبلغین کے قبائل کے ساتھ اُن کی عداوت ہو اور وہ ان سے انتقام لینے کا قصد کریں ۔ان سب کے علاوہ عرب کی عام عادت یہ تھی کہ حفاظت خود اختیاری کے لیے مسلح سفر کرتے تھے ۔لہٰذا اس اسلحہ بندی کو جبرِ دین سے کوئی تعلق نہ تھا ۔اکثر اوقات مبلغین کی تعداد بہت کم ہوتی تھی اور جس قبیلے میں مبلغین جاتے تھے اُن کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی ۔اگر مقصود اسلام پرجبر کرنا ہوتا تو اس کے لیے مبلغین کی یہ قلیل تعداد کیونکر کافی ہو سکتی تھی۔ (٢) غلط فہمی کی دوسری بڑی وجہ میدانِ جنگ کا وہ پیغام ِامن ہے جس سے خونریزی ٹل جائے اور امن و مصلحت قائم ہو ۔حضور علیہ السلام سردارانِ فوج کو یہ حکم دیتے تھے کہ جب تم مشرکوں اور دشمنوں کے مقابل ہو تو اُن کو تین باتوں میں سے کسی ایک بات کے قبول کرنے کی دعوت دو۔ اُن میں جو بات بھی وہ مان لیں تو اُن کے ساتھ لڑائی کرنے سے رُک جائو۔ اول اسلام کی دعوت دو، اگر وہ قبول کریں تو پھر رُک جائو اور اُن سے خواہش کرو کہ مسلمانوں کے ملک میں آ جائیں تو اُن کا وہی حق ہوگاجو مسلمانوں کا ہے اگر وہ نہ مانیں تو اُن کی حالت بدو مسلمانوں کی سی ہوگی ۔قانون اُن پر مسلمانوں کا جاری ہوگا لیکن غنیمت اور فے میں اُن کا حصہ نہ ہوگا۔ جب تک وہ جہاد میں شرکت نہ کریں ۔اگر اسلام قبول نہ کریں تو اُن کو جزیہ دے کر ذمی بننے کو کہہ دیا جائے۔ اگر اِس کو وہ مان لیں تو اُن سے بھی رُک جائو۔ اگر وہ اس کو نہ مانیں تو پھر خدا کی