ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
قریشی صاحب ! وہ رِشی تھے رِشی ۔ولی تھے میں نے انہیں تو کیا دیکھنا تھا، ان کے مریدوں میں بھی سچائی ، صاف گوئی ،بے نفسی اور ریا سے نفرت پائی ۔ان کی زندگی کو میں نے بھی چند سال قریب سے دیکھا ۔ایسا رشی منی میں نے مسلمانوں میں کہیں نہیں پایا ۔جب بھی میں نے ان سے سرکاری طورپر کبھی کوئی استفسارات کیے تو انہوںنے ہمیشہ سچ بتلایا خواہ سچ بتلانے سے ان کے پاسپورٹ کی منسوخی کاڈر ہی کیوںنہ ہو۔ میری زندگی پر ان کے اقوال کا بہت اثر ہوا ان کی ''لائف''سے میں بہت ہی متاثر ہوا۔ وہ بہت بڑے دھرماتما اور مہاتما تھے۔ جس طرح تم لوگ عرسوں پر آتے ہو وہ عرسوں پر تو نہیں آیا کرتے تھے۔ اور نہ ہی قوالی سُنا کرتے تھے لیکن ان کی مجلس میں غیر مسلموں کے دلوں پر بھی وہ شانتی اور سرور پیدا ہوتے تھے جو شاید ہی کہیں دیکھے ہوں ان کے لبوں سے پھول جھڑتے تھے ۔صحیح معنوں میں وہ پرماتما کے ایک پہنچے ہوئے رشی تھے''۔ ڈیڑھ ماہ قبل جب وہ سہارنپور سے لاہور بیماری کی حالت میں پاکستان کے سفر کے لیے روانہ ہوئے تو میں انہیں الوداع اور پرنام کرنے گیا تھا ۔آہ ! یہ آخری درشن تھے جو انہوں نے مجھے دئیے ! کاش ان جیسا پوتر منش انسان اس دھرتی پر یعنی رائے پور ضلع سہارنپور میں ہی سرگباش ہوتا! پرماتما انہیں شانتی بخشے اگر تمہیں موقع ملے تو ان کی قبر پر پہنچ کر میرا سلام اور پرارتھنا عرض کرنا''۔ اتنے الفاظ کہہ کر وہ ہندو آفیسر تو چلا گیا لیکن مجھے ورطہ حیرت میں ڈال گیا ! ایسی حیرت جسے میں زندگی بھر بھول نہیں سکوں گا اس واقعہ کے انمٹ تاثرات میرے قلب وذہن پر ہر وقت موجود رہتے ہیں ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ١ شیخ فریدالدین عطار کی توبہ : مولانا عبدالرحمن جامی فرماتے ہیں : ''شیخ فرید الدین عطار کی تو بہ کا موجب یہ ہوا کہ وہ عطاری کا کاروبار کرتے تھے ایک دن حسبِ معمول کاروبار میں مشغول تھے کہ ایک دُوریش ان کی دُکان پر پہنچے او چند بار شَیْئًا لِلّٰہْ کہا،لیکن یہ درویش کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ،درویش نے کہا اے خواجہ تم کس طرح مروگے؟ تب یہ متوجہ ١ خدام الدین ش ٨ فروری ١٩٦٣ئ