ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
رکھے اور جاری رکھے اور ان کی حفاظت فرمائے لیکن حضرت اقدس رحمة اللہ علیہ کی جو سوچ تھی جامعہ مدنیہ جدید کے متعلق وہ آج کی نہیں تھی وہ آج سے دو سوسال بعد کی تھی ،مختصر سی اُن کی باتیں عرض کروں گا تاکہ اندازہ ہو کہ اُن کا مقصد کتنا بڑا تھا تاکہ حضرت کے چھوڑے ہوئے اس مشن اور مقصد میں بہت بڑے عزم کے ساتھ شامل ہوں کوئی چھوٹی موٹی بات اسے نہ سمجھے۔ یہاں اُن کا مقصد کوئی بڑی بلڈنگ نہیں تھی کوئی شاندار عمارت مقصد نہیں تھی اصل میں مقصد دین کے کلمہ کی بلندی تھی ظاہری اور باطنی اعتبارسے دین کا نام بلند ہواور رجالِ کار پیدا ہوں اور اتنے پیدا ہوں کہ ساری دُنیا میں پھیل جائیں۔لاہور میں نہیںپاکستان میں نہیں ہندوستان میںنہیں ساری دُنیا میں پھیل جائیں ۔فرمایا کرتے تھے کہ دیکھومیں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اتنا بڑا مدرسہ بنوادے جس میں بیک وقت پانچ چھ ہزارطلباء رہ سکیں اور فرماتے تھے کہ جب اس میںپانچ سو یا ایک ہزار طلباء ہر سال فارغ ہوں گے تو بتلائو پچاس سال اور سوسال بعد کتنے علماء پیدا ہوجائیں گے یعنی پچاس سال اور سوسال بعد جس میں کئی زندگیاں گزر جائیں گی اُس کا وہ سوچتے تھے آج کا نہیںسوچتے تھے تو یہ ایک ایسا پودا ہے اور ایسی بُنیاد ہے کہ اگر اللہ نے اسے قبول فرمالیا تو یہ ہماری بڑی سعادت ہوگی کہ اِس کی بنیاد میں ہمارا حصہ ہوجائے اور اس کا فیض سارے عالم میں پھیل جائے۔ حضرت مفتی محمو د صاحب سے گفتگو : ایک بار حضرت مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ سے حضرت گفتگو فرمارہے تھے اسی مدرسہ کے بارے میں جب زمین بھی نہیں خریدی گئی تھی ،اُس وقت فرمانے لگے کہ ایسا بڑا مدرسہ بنانا چاہتا ہوں ۔مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ کو حضرت سے بڑا تعلق اورمحبت تھی بڑا اکرام احترام کرتے تھے اور اس لیے کرتے تھے کہ مفتی صاحب حضرت داداجان رحمہ اللہ کے شاگرد تھے ترمذی شریف ،میبذی اور اس طرح کی فنون کی کتابیں ان سے پڑھی تھیں ہندوستان میں ،تو اس لیے بڑا اکرام فرماتے تھے تو مفتی صاحب نے فرمایا اتنا بڑا مدرسہ تو حکومتیں بناتی ہیں ۔اس کے لیے تو بڑا سرمایہ اور بہت بڑی منصوبہ بندی اوربہت کچھ درکار ہے تو حضرت نے کچھ دیر سکوت فرمایا اور پھر فرمانے لگے کہ'' اللہ تعالیٰ بنا سکتا ہے ''۔ مفتی صاحب نے یہ جملہ سُن کر فرمایا کہ ٹھیک ہے یہ بات صحیح ہے تو ان بزرگوں کی دُعائیں یہ جو کام ہورہا ہے اور جوآئندہ ہوگا اس میں میرا یا آپ میں سے کسی کا کوئی عمل دخل نہیں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ جو ثمرات آج ہم دیکھ رہے ہیں اور آئندہ دیکھیں گے یہ صرف اُن بزرگوں کی پرخلوص دُعائوں کی برکت ہے ہماری واہ واہ تو ایسے ہی ہو جاتی ہے ہمیں توپکی پکائی ملی ہے ہماری تو واہ واہ نہیں ہونی چاہیے ۔بڑے حضرت نے اس کام کے لیے جومشکلات اُٹھائیں جو تکلیفیں اُٹھائیں جس سے وہ گزرے ہم نے تو اس کا سوواں حصہ بھی نہیں دیکھا ۔ہم تو بہت آرام اورراحت میں ہیں ۔جوتکلیفیں وہ اُٹھا گئے یہ اُن کا ثمرہ ہے۔ اللہ