ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
بتلایا اور قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے اب جب یہ بات ہوئی کہ اللہ نے فرمادیا کہ اُن کا اجراُن کا بدلہ میرے ذمے ہے تو فرماتے ہیں فمنا من مضی لم یأکل من اجرہ شیئاً یعنی بعض حضرات تو ہم میں سے ایسے تھے کہ جن کی وفات ہوگئی انہوں نے اپنے اجر میں سے کچھ بھی نہیں پایا ، دنیا میں اُس کو کچھ نہیں ملا منھم مصعب بن عمیر فرماتے ہیں ان میں حضرت مصعب بن عمیر بھی ہیں، حضرت مصعب بن عمیر اور کچھ صحابہ کرام ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے اوریہاں تبلیغ کرتے رہے اور لوگ مسلمان ہوتے رہے حتی کہ یہاں جناب رسول اللہ ۖ کی تشریف آوری کا ماحول بن گیا۔ حضرت مصعب بن عمیر کی حالت اور نبی علیہ السلام کے آنسو : انہوں نے کام کیا بہت ،قربانی دی بڑی زبردست ،اتنی کہ پہلے اُن کا لباس جو تھا وہ بھی ریشم کاتھا اوڑھنا بچھونا سب ریشم کا تھا ایسی حیثیت اُ ن کی تھی جب اسلام قبول کر لیا تو پھر اُن کے پاس کچھ نہ رہا ۔اور جب ہجرت کر لی تو پھر ایک دفعہ جناب رسول اللہ ۖ نے دیکھا تو اُن کی حالت دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اِنہوںنے دریافت کیا،کیا بات ہے ؟تو بات یہ تھی کہ ان کے کپڑے میں چمڑے کا پیوند لگا ہوا تھا ،اب کپڑے میں کپڑے کا پیوند لگایاجاتا ہے لیکن یا تو یہ کہ کپڑا بھی میسرنہیں تھا جس سے پیوند لیاجائے چمڑا ایسی چیز ہے جو ہر جگہ مل جاتا ہے پڑاہوا بھی مل جاتا ہے تو انہوں نے اُس کا پیوند لگا رکھا تھا ۔اِنھوںنے دریافت کیا ،کیا وجہ ہے تو رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ مجھے تمہاری پہلی حالت اور یہ حالت یاد آئی اس پر گویا آنسو آئے ہیں۔ انھوںنے بہت ہی اچھا جواب دیا ۔اِنہوں نے کہا کہ میں اُس حالت کی بہ نسبت اِس حالت پر خوش اور مطمئن ہوں۔ حضرت مصعب بن عمیر کی شہادت : اب ہوتا ایسے ہے کہ اُحد کی لڑائی ہوئی، جب اُحد کی لڑائی ہوئی تو پھر اس میں اُن کا ذکر آتا ہے کہ منھم مصعب بن عمیر قتل یوم اُحد اُحد کے دن اُن کی شہادت ہوگئی لم یوجد لہ مایکفن فیہ اُن کے لیے کفن کے واسطے کوئی چیز نہیں مل رہی تھی الانمرة سوائے ایک چادر کے فکنا اذا غطینا رأسہ خرجت رجلاہ جب ہم اُن کا سر ڈھانپتے تھے تو پائوں نکل جاتے تھے اورپائوں ڈھانپتے تھے تو سر نکل جاتا تھا وہ چادر بھی پوری نہیں تھی۔تو جناب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اس چادر سے اِن کا سر ڈھانپ دو اور ان کے پائوں پر ''اِزخر'' ایک گھاس ہوتی ہے وہ ڈال دو اس سے ڈھانپ دو ۔تو یہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ توایسے تھے کہ جنہوں نے ہجرت کی اور خداوندِ کریم کے ہاں اُن کا اجر واجب ہوا اور انھوں نے دُنیا میں اس کاکچھ بھی صِلہ نہیں دیکھا بلکہ اسی طرح دُنیا سے رخصت ہوگئے اور جب وفات ہوئی ہے تو اتنا بھی اُنھیں میسر نہیں تھا دنیا میں سے کہ کفن ہی ہو سکے پورا۔