ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
طرح کپڑے کو رنگتے وقت رنگ میں ڈال کر اور بس ایک ڈوب دے کر نکال لیتے ہیں اسی طرح اس شخص کودوزخ کی آگ میں ڈال کر فوراً نکال لیا جائے گا جس کی شدت کایہ اثر ہو گا کہ سابقہ راحت کا خیال بھی مٹ جائے گا)پھر اس سے پوچھا جائیگا کہ اے آدم کے فرزند ! کیا تونے کبھی خیریت اور اچھی حالت دیکھی ہے ۔اور کیا کبھی عیش و آرام کا کوئی دورتجھ پر گزرا ہے ؟ وہ کہے گا کبھی نہیں ،قسم خدا کی اے پروردگار! اورایک شخص اہلِ جنت میں سے (یعنی ان خوش نصیب بندوں میں سے جواپنی ایمان والی زندگی کی وجہ سے جنت کے مستحق ہوں گے )ایسا لایا جائیگا جس کی زندگی دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف میں اور دُکھ میں گزری ہوگی ،اور اس کو ایک غوطہ جنت میں دیا جائے گا (یعنی جنت کی فضائوں اورہوائوں میں پہنچا کر فوراً نکال لیا جائے گا (جس کا اثر یہ ہوگا کہ سابقہ تکلیف کا خیال تک مٹ جائے گا)اور اس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم کے فرزند ! کیا کبھی تو نے کوئی دُکھ دیکھا ہے ،اور کیا تجھ پر کوئی دورشدت اور تکلیف کا گزرا ہے تو وہ کہے گا نہیں،خدا کی قسم اے میرے پروردگار!مجھ پرکبھی کوئی تکلیف نہیں گزری اور میں نے کبھی کسی تکلیف کا منہ نہیں دیکھا ۔ جنت ودوزخ کی حقیقت سے لوگوں کی بے فکری : عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ۖ مارأیت مثل النار نام ھاربھا ولا مثل الجنة نام طالبھا۔ (ترمذی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا میں نے نہیں دیکھی دوزخ کی طرح کوئی خوفناک بلا، کہ سوتا ہو اُس سے بھاگنے والا ،اور نہیں دیکھی میں نے جنت کی طرح کی کوئی مرغوب ومحبوب چیز کہ سوتا ہو اُس کاچاہنے والا(یعنی جنت کا سن کرہر ایک اس کا طلبگارہوتا ہے لیکن پھر بھی بہت سے اس کے لیے کوشش سے غفلت میں پڑے رہتے ہیں ۔اسی طرح جہنم کا سن کرہرایک اس سے دُور رہناچاہتاہے لیکن پھر بھی بہت سے اس سے بچنے سے غفلت میں پڑے رہتے ہیں)۔