ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
حرف آغاز نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم امابعد! گزشتہ ماہ کی ١٦ اکتوبر کو ملائشیا کے نئے دارالحکومت'' پتراجایا ''میں مسلم ممالک کی تنظیم او،آئی ، سی کا دسواں سربراہی اجلاس شروع ہوا ۔ یہ تنظیم ٥٧ مسلم ممالک پر مشتمل ہے اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ملائشیاکے حال ہی میںریٹائر ہونے والے وزیر اعظم ''مہاترمحمد'' کی زیرِصدارت منعقد ہو رہی ہے ۔ملائشیا اس وقت جنوبی ایشیا کی پانچویں اقتصادی قوت ہے فی الوقت مہاتر محمد مسلم اُمہ کے اتحاد اور سربلندی کے زبردست داعی ہیں ۔وہ صیہونیت پر جو عالمی امن کے ازلی دشمن اور فتنہ وفساد کی جڑ ہے صحیح معنی میں نظر رکھتے ہیں ان کی کوشش ہے کہ مسلم حکومتیں کفر کے خلاف کم ا زکم اُمور پر تو ضرور متفق ہوجائیں ۔او،آئی ،سی کے افتتاحی اجلاس سے ان کے خطاب کو عالمی طورپر امن کے خواہاں ہر شخص نے پسند کیاہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ''مسلمان عقل استعمال کرکے مغرور یہودیوں کوشکست دیں ''یہودیوں کی جانب سے ان کے بیان پر پہلی بار شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کا پائوں کفر کی دُکھتی رگ پر پڑا ہے جس سے وہ بل بلا اُٹھا ہے اسی طرح رأس الکفر امریکہ کے رسوائے زمانہ صدربش نے بھی ان کے بیان پر اپنا متعصبانہ صلیبی رد عمل ظاہر کرتے ہوئے براہ راست مہاتر محمد سے کہا کہ'' یہودیوں پر آپ کے ریمارکس میرے عقیدے کے بالکل خلاف ہیں آپ کا بیان غلط اور انتشار پیدا کرنے والا تھا۔'' اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ بش کے عقیدے میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ذلت کے مارے یہودیوں کی ہر حال میں پشت پناہی کرے۔ مسلم حکمرانوں کے لیے مہاترمحمد کا بیان دعوتِ عمل ہے اس دعوت پر لبیک کہنا محض اخلاقی ہی نہیں بلکہ شرعی اور قومی فریضہ بھی ہے ۔